خود سوی ما ندید و حیا را بهانه ساخت
ما را به غمزه کشت و قضا را بهانه ساخت
(خود ہماری طرف نہ دیکھا اور بہانہ کیا کہ حیا آتی ہے! پھر ہمیں اداؤں سے مار دیا اور بہانہ کیا کہ اس کی تو موت آ گئی تھی سو مر گیا۔)
رفتم به مسجدی که ببینم جمالِ دوست
دستش به رخ کشید و دعا را بهانه ساخت
(میں مسجد کو گیا تاکہ دوست کا جمال دیکھوں، پر اس نے اپنے ہاتھ چہرے پر کر لیے اور بہانہ کیا کہ دعا مانگ رہا ہے۔)
دستش به دوشِ غیر نهاد از رهِ کرم
ما را چو دید لغزشِ پا را بهانه ساخت
(اس نے از رہِ محبت غیر کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ ہم کو دیکھا تو بہانہ کیا کہ میرا پیر پھسل گیا تھا، سو سہارا لیا۔)