ہماری لغزشیں کرتی ھیں ان کی پرورش ورنہ
یہ وقتی گردشیں ہیں یہ یونہی برپا نہیں ہوتیں
عجب سا حوصلہ ہوتا ھے امواجِ تلاطم میں
مُسلسل سر پٹختی ہیں مگر پسپا نہیں ھوتیں
تلخ گوئی سے ہماری تُو پریشان نہ ہو
ہم ہیں دنیا کے مصائب کے ستائے ہوئے لوگ
تجھ کو اے شخص کبھی زیست کی تنہائی میں
یاد آئیں گے ہم عجلت میں گنوائے ہوئے لوگ
میں تو جلتے ہوئے صحراؤں کا اِک پتھر تھا
تم تو دریا تھے، مِری پیاس بُجھاتے جاتے
مُجھ کو رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مُجھے دیکھ کے آتے جاتے
This site uses cookies to help personalise content, tailor your experience and to keep you logged in if you register.
By continuing to use this site, you are consenting to our use of cookies.