Assalam-o-Alaikum
Allah-ho-Akber
Buhat hi derd key sath mai'n ney ye tehreer likhi hey aur is yaqeen k sath
k perhney waley bhi is derd ko mehsos krai'n ge keh
ye sub kuch hamarey itraf mai'n hi ho raha hey
Allah sub ko apni aman main rakhey
Ameen
الله اکبر
فجر کی نماز کے بعد جب میں گھر میں داخل ہو رہا تھا، میں نے دیکھا ماسٹر عبدللہ گھر کے باہر
بیٹھے ہیں، میں نے تعجب سے انھیں دیکھا کیونکہ گھر کے باہر بیٹھتے تو وہ روز ہی ہیں مگر اتنی سویرے کبھی نہیں ام طور سے میری ان سے ملاقات آفس جاتے وقت ہوا کرتی ہے میں گھر میں جانے کی بجاے ان کی طرف بڑھا اور پوچھا خیریت ہے ماسٹر صاحب.........وہ میری بات سنی ان سنی کرتے ہوے بولے، تم نے کبھی صبحہ سویرے ان چڑیوں کی آوازوں پر غور کیا ہے - یہ دن میں کیسے بولتی ہیں اور پھر تم مغرب کے وقت ان کی آوازیں سنو....یہ تمہیں بالکل مختلف محسوس ہوں گی سویرے ان کی آوازوں میں تم خوشی محسوس کرو گے جیسے وہ اپنے والدین کو خوشی خوشی رخصت کر رہے ہوں کہ وہ ان کے لئے دانہ دنکه لائیں گے اور مغرب کے وقت تم ان کی آوازوں میں ایک طلب اور انتظار کی کسک محسوس کرو گے، جیسے وہ اپنے والدین کو پکار رہے ہوں کہ ہم بھوکے ہیں ہمیں کچھ خانے کو دو اور جب وہ آجاتے ہیں تو تم ان کی آوازوں میں ایک عجیب سی خوشی محسوس کرو گے، یہ تو میں ایک پرندے کی بات کر رہا ہوں ہم تو پھر انسان ہیں- کیا ہم جسے الله نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ایک دوسرے انسان کے کرب اور تکلیف کو محسوس نہیں کر سکتے...........ذرا سوچو....غور کرو اس بچے کے کرب کو جو صبحہ سے شام تک اپنے باپ کا انتظار کرتا ہے مگر شام کو..............گلی میں ایک شور اٹھتا ہے.....دروازے پر دستک ہوتی ہے......ایک ہلکی سی آواز کے ساتھہ دروازہ کھلتا ہے اور سامنے ایک دلخراش منظر ہوتا ہے جہاں کاندھے پر کچھ لوگ چار پائی اٹھاے کھڑے ہیں اور اس پر ایک لاشہ سفید کپڑے کے نیچے چھپا ہے اور کپڑے پر کہیں کہیں خوں کے نشان ہیں گھر میں صف ماتم بچھہ جاتی ہے....وہ بچہ پریشان ہے اسکا معصوم ذہین یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے......اسکے ننھے ذہین میں سینکڑوں معصوم سوال جنم لے رہے ہیں مگر.....وہ کس سے پوچھے.......اچانک کوئی اسے زور سے دبوچ لیتا ہے....وہ نظر اٹھا کر دیکھتا ہے....یہ تو ماں ہے ...مگر یہ رو کیوں رہی ہے؟ اسکی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ یہ گھر میں چیخ و پکار کیسی ہے؟ وہ اپنی ماں سے پوچھتا ہے امان ابّا کہاں ہے؟ اور اسکی ماں اور زیادھ زور سے رونے لگتی ہے، وہ اسے کیسے سمجھاے کہ اب اسکا باپ کبھی واپس نہیں اے گا ،اب اسے کبھی اپنے باپ کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا وہ اسے کیسے سمجھاے کہ اسکا باپ کسی انجانی گولی کا شکار ہو گیا اسکی تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی نہیں اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے لئے کمانے کے لئے نکلا تھا.........کیا تم ان بوڑھے ماں باپ کا درد محسوس کرسکتے ہو جن کی جوان اولاد کی میت ان کے سامنے رکھی ہو کیسا دل کت سا گیا ہوگا ایک ایک سانس جان پر بھاری ہوگی.............ان بیٹیوں کے دل پر کیا گزری ہوگی جن کی ماں ان کی آنکھوں کے سامنے جلتی ہی بس میں شعلوں کا شکار ہوگئی وہ چھیکھتی رہیں چلاتی رہیں لیکن کوئی مدد کو نہیں آیا.......کیا کوئی پرسان حال ہے انکا جو ١٢ مئی، ١٨ اکتوبر، ٢٧ دسمبر اور ایسے بے شمار درد ناک ایام جن کے دے گئے زخموں سے لوگ آج بھی چور چور ہیں ....کیا بسوں اور گاڑیوں پر پتھراؤ کرنے والے لوگوں کو یہ پتھر اپنی روح پر پڑتے ہوے محسوس نہیں ہوتے؟ کیا ایک لمحے کے لئے بھی ان کے دل و دماغ میں یہ خیال نہیں آتا کہ ان میں انکا اپنا بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ کیا یہ خود کش دھماکے کرنے اور کروانے والے ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم کس کی جان لے رہے ہیں ...........ماسٹر صاحب لمحہ بھر کے لئے رکے تو میں نے کہا ماسٹر صاحب حکومت اس سلسلے میں اقدامات کر تو رہی ہے تو بولے تم پھر میرے سامنے وہی روایتی باتیں کر رہے ہو جو سب لوگ کرتے ہیں.....پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوتے ہوے بولے کیا تو "الله اکبر" کے معنی جانتے ہو؟ اس کے معنی ہیں الله سب سے بڑا ہے ہم اس قوم اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں کہ جس پر جب بھی کوئی کرا وقت آیا وہ الله اکبر کہ کر اٹھہ کھڑی ہی تو الله نے اسے سرخورو کیا لیکن آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ہاتھہ میں بھیک کا کشکول لئے ان ہی کے سامنے کھڑے ہیں جو الله کو نہیں مانتے اور ان سے الله کے واسطے بھیک مانگ رہے ہیں آج ہم اس حال کو پہونچ چکے ہیں کے مساجد کے میناروں سے الله اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں مگر ہمیں الله یاد نہیں آتا نماز کی نیت باندھتے ہیں الله اکبر کہتے ہیں مگر الله یاد نہیں آتا رکوع و سجود میں اس کی بڑائ اور عظمت بیان کرتے ہیں مگر الله یاد نہیں اتا ہم کہاں جا رہے ہیں ہماری کوئی منزل ہے کہ نہیں معیشت روز با روز زبوں حالی کا شکار ہوتی جا رہی ہے کاروباری حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی شمالی علاقہ جات کے حالات کس سے پوشیدھ نہیں ہیں دروں حملوں نے نجانے کتنے لوگوں کو ان کے پیاروں سے جدا کردیا ہے انکا کیا حال ہوگا جنکا ہر ہر لمحہ اپنے بچوں اور عزیزوں کے جان کے خوف سے گزرتا ہوگا نجانے کتنے ہی بے گنہہ ان تاریک رہوں میں مارے گئے جنھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنتے دیکھا ان پر کیا گزری ہوگی کیسی دیوانگی تری ہوجاتی ہوگی مگر ........................میں اطمینان سے ہوں میری آنکھہ سے کبھی ایک آنسو بھی ان کے لئے نہیں گرا وہ بھی تو میرے کلمہ گو بھائی ہیں..........ماسٹر صاحب کی آواز بھرا گئی ہے ......انکا سر جھکا ہوا ہے شاید وو اپنے آنکھوں کی نامی مجھ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے لیکن میں انکا دکھہ اپنی آنکھوں سے بہتا بخوبی مسوس کر سکتا ہوں..وہ پھر بولے نجانے وہ وقت کب اے گا جب ہم الله اور اس کے پیارے رسول پر صدق دل سے ایمان لائیں گے اب بھی وقت ہے کہ ہم سمبھل جائیں اور سری قوم ایک ساتھہ الله اکبر کہ کر اٹھہ کھڑی ہو مجھے یقین ہے کہ ہم ہر مشکل سے نکل جائیں گے
الله ہم پر اپنا رحم فرماے
آمین