نہیں نیند آتی تو یہاں ہوتے؟اتنا اچھا لگا کہ تین بار کاپی کیا۔
کہیں نیند میں تو نہیں ہیں بہنا
نہ نیند نیناں، نہ اَنگ چیناں ۔
نہیں نیند آتی تو یہاں ہوتے؟اتنا اچھا لگا کہ تین بار کاپی کیا۔
کہیں نیند میں تو نہیں ہیں بہنا
ہمممممممم چین کھو گیا ہےنہیں نیند آتی تو یہاں ہوتے؟
نہ نیند نیناں، نہ اَنگ چیناں ۔
نہ آپ نے کہا۔۔۔۔نہ ہم نے سنا ۔ہمممممممم چین کھو گیا ہے
کچھ تو ہو گیا ہے
تم سے ملنے کے بعد
ہمارا دماغ ٹھکانے پر نہیں اس وقت۔۔۔ اس لئے کہا سنا معاف کیجئے گا
ہممممممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خسرو کی پسندیدہ غزل ہے۔۔۔۔۔۔شائدہم اس کے ساتھ ہی جواں ہوئے۔۔۔۔۔۔۔جب سے ہوش سنبھالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمممممممممم نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں۔۔۔۔۔ہمممممممم چین کھو گیا ہے
کچھ تو ہو گیا ہے
تم سے ملنے کے بعد
رلانے کا ارادہ ہے کیا؟؟؟؟
نہ آپ نے کہا۔۔۔۔نہ ہم نے سنا ۔
دماغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہممممممممم
ہر ایک ہم کو ستانے پہ آگیا توبہ
ہمارا دل جو نشانے پہ آگیا توبہ !!
ہم اپنے پاؤں پہ خود ہی کھڑے ہوئے ہیں مگر
زمانہ ہم کو گرانے پہ آگیا توبہ
چراغ جان کے جس کو منڈیر پر رکھا
وہ میرے گھر کو جلانے پہ آگیا توبہ !!۔
ہماری انگلی پکڑ کر جو چلنا سیکھتا تھا
وہ آج ہاتھ اٹھانے پہ آ گیا توبہ!!۔
دکھایا اس کو ذرا سا جو ائینہ ہم نے
وہ شخص آنکھیں دکھانے پہ آگیا توبہ !!۔
ہر ایک شخص کے دیکھے ہزار روپ یہاں
دماغ اپنا ٹھکانے پہ آگیا توبہ !!۔
ہممممممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خسرو کی پسندیدہ غزل ہے۔۔۔۔۔۔شائدہم اس کے ساتھ ہی جواں ہوئے۔۔۔۔۔۔۔جب سے ہوش سنبھالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمممممممممم نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں۔۔۔۔۔
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں؟
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسروؔ
سپیت من کے دورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہم کیوں رلائیں گے؟ ۔رلانے کا ارادہ ہے کیا؟؟؟؟
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہم کیوں رلائیں گے؟ ۔
کتنی خاموش مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔
شور بس آنکھ کی نمی میں تھا ۔
تمام جذبوں سے معتبر ہے
اداس آنکھوں سے مسکرانا ۔
ان کو دیکھے سے آ جاتی ہے منہ پہ رونق
ہم تیرے عشق میں یوں زرد ہوئے جاتے ہیں
لوگ تکتے ہیں تو ہمدرد ہوئے جاتے ہیں
ان کو دیکھے سے آ جاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے۔
ہائے۔۔۔۔کون دیتا ہے دوسری آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار یہ شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ویسے ہم بار بار پکارتے ہیں جب تک ہمارے ووکل کارڈز سلامت ہیں ۔ کیوں کہ زرا سا جھک جانا تعلق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے سے بہتر ہوتا ہے ۔ہاں اس معاملے میں جو رنج دل کو اور عزتِ نفس کو ہوتا ہے وہ بھی کوئی چھوٹا دکھ نہیں۔۔۔ خیر غزل سنئے۔۔۔۔۔ شاعری بولتی ہے ۔
کہساروں کا فیض ہے ورنہ
کون دیتا ہے دوسری آواز
ہائے۔۔۔۔کون دیتا ہے دوسری آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار یہ شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ویسے ہم بار بار پکارتے ہیں جب تک ہمارے ووکل کارڈز سلامت ہیں ۔ کیوں کہ زرا سا جھک جانا تعلق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے سے بہتر ہوتا ہے ۔ہاں اس معاملے میں جو رنج دل کو اور عزتِ نفس کو ہوتا ہے وہ بھی کوئی چھوٹا دکھ نہیں۔۔۔ خیر غزل سنئے۔۔۔۔۔ شاعری بولتی ہے ۔
جو بچی ہے گزار دوں ؟ اچھا!۔
زندگی تجھ پہ وار دوں ؟ اچھا!۔
اور تو کچھ نہیں ہے میرے پاس
خواب ہیں،مستعار دوں؟ اچھا!۔
آزما لوں تجھے وفا پیکر
تجھ کو راہِ فرار دوں؟ اچھا!۔
صبر کو تقویت ملے گی کیا؟
جبر کو اختیار دوں ؟ اچھا!۔
تم سنو اور ان سنی کر دو
میں صدا بار بار دوں؟ اچھا! ۔
ہمممممممممممم اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم سنو، اور اَن سُنی کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔تجھ کو راہِ فرار دوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبر کو اختیار دوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!۔
آج کی رات بڑی قاتل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ ہ ہ ہ بہنا۔۔۔۔۔۔ زخموں سے کھرنڈ اتنے لگے۔
آج کی رات بڑی قاتل ہے
آج کی رات گزرے گی کیسے
اور جو کسی نے دوسرے کے جھکنے کے باوجود چلے جانے کی ٹھان لی ہو۔۔۔۔۔
میرا تو یہ خیال تھا کہ ضبط توڑ دوں
آنسو گلے میں اٹکے, ارادہ بدل گیا
جو خواب میری آنکھ کی جانب سفر میں تھا
وہ رتجگوں کو دیکھ کے رستہ بدل گیا
تو پھر اسے جانے دیا جائے۔اور جو کسی نے دوسرے کے جھکنے کے باوجود چلے جانے کی ٹھان لی ہو۔۔۔۔۔
آج کی رات بڑی قاتل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت.
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
تو پھر اسے جانے دیا جائے۔
یہ سوچنا بھی کتنا مشکل ہوتا ہے نا۔۔۔کسی کو راستہ دینا۔۔۔۔پر متعلقہ شخص کی خوشی کی خاطر۔۔۔یہ بھی کرنا پڑتا ہے ۔ نتیجہ کی پرواہ کیئے بغیر۔۔۔
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں ۔
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔ہم نہیں بولتے آپ سے۔۔۔کب سے ضبط کئے بیٹھے تھے۔۔۔ہار گئے ہیں اپنے ہی ضبط سے ۔ارے ہمیں کیوں رلا رہی ہیں؟؟؟؟؟؟؟ ہمیں ایسی فیلنگ آنے لگی جیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ہم بھی کسی سے بچھڑے ہیں
ہممممممم شائد بہت سے رشتوں سے بچھڑے ہیں۔۔۔یا شائد خود اپنی ذات سے بچھڑ گئے ہیں۔۔۔ کوئی خلا ہے۔۔۔جو بھرتا نہیں۔
لوگ بچھڑیں تو بسا لیتے ہیں دنیا پھر سے
ہم تو بس ہاتھ چھڑاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جب سے تو راہ کی دیوار سمجھتا ہے ہمیں
ہم تری راہ میں آتے ہوئے مر جاتے ہیں
چند چہروں کے لیے دید بچا رکھی تھی
اب تو ہم پلکیں بچھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
جو ترے نام سے اشعار کہے تھے ہم نے
ہم وہ اشعار سناتے ہوئے مر جاتے ہیں۔
اسے اپنے فردا کی فکر تھی، جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا
کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ خود سراپا سوال تھا
وہ جو اس کے سامنے آگیا، وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی، عجب اس کا رنگِ جمال تھا
دمِ واپسی اسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مثال تھا
وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اُسے میری چپ نے رلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا
میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا، اور مجھے فقط اتنا وہ کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صرف وہم و خیال تھا
ہمممممممم۔۔۔ درست کہا۔۔۔ ایک خار کی مانند۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے تو پہلے ہی بولا تھا
آج کی رات بڑی قاتل ہے
بات ابھی ابھی کی ہو یا کبھی کی۔۔۔۔ بچھڑنا تو بچھڑنا ہی ہوتا ہے۔ یہ تو احساس تو اس خار کی طرح ہوتا ہے جس کی نوکیں رگ وجاں میں اتر گئی ہوں۔ ضبط کیجئے بھلے ضبط توڑ دیجئیے لیکن یہ اذیت کم ہو ہی نہیں پاتی
ہمممممممم۔۔۔ درست کہا۔۔۔ ایک خار کی مانند۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے میری چپ نے رلا دیا ، جسے گفتگو میں کمال تھا۔۔۔ فیورٹ غزل ۔
حکم تیرا ہے تو تعمیل کیے دیتے ہیں
زندگی ہجر میں تحلیل کیے دیتے ہیں
تو میری وصل کی خواہش پہ بگڑتا کیوں ہے؟
راستہ ہی تو ہے_______تبدیل کیے دیتے ہیں
ہم جو ہنستے ہوئے اچھے نہیں لگتے تم کو۔۔
۔حکم کر! آنکھ ابھی جھیل کیے دیتے ہیں۔۔!!
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
آنکھ میں خواب نہیں خواب کا ثانی بھی نہیں
کنج لب میں کوئی پہلی سی کہانی بھی نہیں
ڈھونڈتا پھرتا ھوں اِک شہر تخیل میں تجھے
اور مرے پاس ترے گھر کی نشانی بھی نہیں
بات جو دل میں دھڑکتی ھے محبت کی طرح
اُس سے کہنی بھی نہیں اُس سے چھپانی بھی نہیں
آنکھ بھر نیند میں کیا خواب سمیٹیں کہ ابھی
چاندنی رات نہیں رات کی رانی بھی نہیں
لیلی حسن! ذرا دیکھ ترے دشت نژاد
سر بہ سر خاک ہیں اور خاک اُڑانی بھی نہیں
کچے ایندھن میں سلگنا ھے اور اس شرط کے ساتھ
تیز کرنی بھی نہیں آگ بجھانی بھی نہیں
اب تو یوں ھے کہ ترے ھجر میں رونے کے لیے
آنکھ میں خون تو کیا خون سا پانی بھی نہیں
سانوں کی ۔خواب کچھ شاداب شاخوں کے دکھا کر لے گیا
زرد پتوں کو ہر اک جھونکا اڑا کر لے گیا
موم کے پتلے تھے ہم اور گرم ہاتھوں میں رہے
جس نے جو چاہا ہمیں ویسا بنا کر لے گیا
تھک چکا تھا میں مگر ہو شوقِ منزل کا بھلا
راستے بھر اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لے گیا
جس کے پانی کو دعا دیتی رہی پیاسی زمیں
ایک دن فصلیں وہی دریا بہا کر لے گیا
چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو۔۔۔۔ والی راہ پہ۔سانوں کی ۔
بس ہم نہیں آپ سے بولتے۔ کس راہ پہ لے گئیں ہمیں۔۔۔۔۔ ۔۔
چاند کے پار نہیں جانا۔۔بس چاند تک جانا ۔چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو۔۔۔۔ والی راہ پہ۔
نہ ٹکٹ کا خرچہ نہ سامان باندھنے کا درد سر۔۔
چاند کے پار نہیں جانا۔۔بس چاند تک جانا ۔
آج چاند ہی نظر نہیں آیا اتنی مشکل سے اسے تکنے گئے اور مایوس ہو کے لوٹ آئیں ۔ پتہ نہیں کہاں چھپا تھا وہ۔۔۔۔بہت ڈھونڈا۔۔۔ لیکن آسماں خالی ۔
کسی بھی چاند سے ملاقات نہ ہو پائی