عورت
عورت تیرا یہ کردار کبھی غضب ہے کبھی ہے پیار
کبھی تو مامتا کی دیوی ہے کبھی تو شعلا اور انگار
تجھ کو ہلکا کیسے جانے تو ہے قوم کی ایک معمار
عورت تیرا یہ کردار کبھی غضب ہے کبھی ہے پیار
وقت نے ایسی چال چلی ہے پھنس گئی اس میں پیاری تو
دھوکے سے یہ دل بھی توڑا مشکل میں ہے ناری تو
ہمت کرکے باہر آجا ڈٹ جا بن کے ایک کوہسار
عورت تیرا یہ کردار کبھی غضب ہے کبھی ہی پیار
باہیں کھولیں ہوئے کھڑی ہے تجھکو پانے والی ہے
باہر آکر دیکھ ذرا یہ دنیا خوب نرالی ہے
رنج و الم سب پھوٹ پڑا ہے چھوڑ گئے ہیں سب غمخوار
عورت تیرا یہ کردار کبھی غضب ہے کبھی ہی پیار
مٹ گئی تیری ہر کڑواہٹ خوشیاں ہیں اب سب درکار
رخصت ہوگئے سارے منظر امیدوں کی ہے اب بھرمار
نئی نویلی چاہت لیکر پڑھتی رہنا یہ اشعار
عورت تیرا یہ کردار کبھی غضب ہے کبھی ہی پیار