بچے گھر نہیں رہتے
تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہوجائیں وہ پیڑوں پر نہیں رہتے !!
کبھی بے دخل نہ ھونے دو مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
اسے جس دھوپ میں جبری مشقت کھینچ لائی ہے
گھروں سے سائے بھی اس دھوپ میں باہر نہیں رہتے
جھکا دے گا تری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے سر اونچے نہیں رہتے
وہ میرا ہمسفر ہوتا تو اس کو بھی خبر ہوتی
جو گزرے آگ کی بستی سے ان کے پر نہیں رہتے
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کردے گی !!
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے