حقارت سے نہ دیکھو اہل ساحل اہل طوفاں کو
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کنارے ڈوب جاتے ہیں
ہیں سے ہ
ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لیے
نظر نہیں تو اندھیرا ہے آدمی کے لیے
حقارت سے نہ دیکھو اہل ساحل اہل طوفاں کو
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کنارے ڈوب جاتے ہیں
ہے سے ہکسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
کے
کون چاہے گا تمھیں میری طرح
اب کِسی سے نہ محبت کرنا
ga
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مِل جائے تو زحمت کرنا
طرح سے طrha
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسرکرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے،مرے خوابوں کی طرح
تھا
تج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں
آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی
آئے سے آtk
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
dekhi
دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے
مانگے
مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے
بعد
بس ایک ترا نام چھپانے کی غرض سے
کس کس کو پکارا دلِ بیمار نے میرے
نہیں
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگ حنا
موسم آۓ ہی نہیں اب کے گلابوں والے
baqi
بے طلب اس کی عنایت ہے تو حیران ہوں میں
ہاتھ مانوس نہ تھے شاخ نگوں سے پہلے
jate
جان نکلی کسی بسمل کی نہ سورج نکلا
بجھ گیا کیوں شب ہجراں کا ستارا جانے
ھم نے یاد دلایا جب گزرا ھوا زمانہ
ھنس کے کہنے لگے رات گئی بات گئی
کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
گزرا ہوا زمانہ پھر یاد آ رہا تھا
ارمان تڑپ رہے تھے حسرت مچل رہی تھی
گُلوں سے راہ ورسم اچھی نہیں ہے
رگِ گل میں نہاں ہوتے ہیں کانٹے
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
رکھو سے ر
روشنیوں کی پیلی کرنیں، پورب پچھم پھیل گئیں
تو نے کس شے کےدھوکے میں پتھر پہ دے ٹپکا چاند