Biddat Kya Hy

  • Work-from-home

Aliean

Mann'Chala ^^ !-!@!)G0nE/
TM Star
Jan 12, 2016
1,605
167
63
Albasuzaneade
ASalam o alaikum
Deen Main koi naya Amal Ijad Kerna Biddat hy
Mujhe Is Ki koi Tashreeh ker dy GA Kis Qisam Ka Amal Kya Kese Amal
Kya ARaqan Islam MAin Woh AMal Zaydah Kerna
YA kahi aur
TAshreeh mukhtisar dijye ga
@muttalib @saviou
 
  • Like
Reactions: sonofaziz

sonofaziz

TM Star
Dec 28, 2015
1,044
679
1,213
Karachi
ASalam o alaikum
Deen Main koi naya Amal Ijad Kerna Biddat hy
Mujhe Is Ki koi Tashreeh ker dy GA Kis Qisam Ka Amal Kya Kese Amal
Kya ARaqan Islam MAin Woh AMal Zaydah Kerna
YA kahi aur
TAshreeh mukhtisar dijye ga
@muttalib @saviou
WS..
is link ko dekhlen INSHA'ALLAAH aap ko help hojaeygi
http://www.tafrehmella.com/threads/bidat-ki-tareef.103392/
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاۃ
بدعت کے متعلق ایک بڑی گمراہی
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
دو چیزیں ہیں ایک کلام اور دوسرا طریقہ پس سب سے بہترین کلام اللہ
کا کلام ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے
خبردار دین میں نئی نئی باتوں سے بچنا کیونکہ بدترین کام دین میں نئی
چیزیں پیدا کرنا ہے جبکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ابن ماجہ حدیث نمبر ۴۶
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
جس نے ہمارے دین میں ایسی بات کا اضافہ کیا جو اس میں نہیں تو اس
کی بات اور اس کا عمل مردود ہے ابن ماجہ ۱۴
مسند احمد ، ترمذی ، اور ابو داؤد میں بھی یہ حدیث موجود ہے
رسول اللہ ﷺ نے بدعت کو گمراہی فرمایا اور بدعت دین میں نئی ایجاد کا نام ہے لہذا دنیا کی وہ ایجادات جن کا تعلق دین سے نہیں ہے
مثلاً ، کھانے ، ملبوسات ، اوزار ، آلات ، گھڑیاں وغیرہ
یہ چیزیں بدعت نہیں ہیں
بدعت کا اطلاق اُن کاموں پر ہوتا ہے جن کا اطلاق دین سے ہو
بدعت کی چار اقسام ہیں
۰۱- اعتقادی بدعت: جیسے شرک کی تمام قسمیں
۰۲- قولی بدعت: جیسے شرکیہ کلمات نئے نئے وظائف و اوراد وغیرہ۔
۰۳- فعلی بدعت: جیسے میلاد ، قُل ، تیجہ،ساتواں،دسواں،چالیسواں،
برسی،عُرس،میلے وغیرہ
۰۴- بدعت فش شرک: وہ تمام قولی اور فعلی سنتیں جن کو چھوڑنے کو دین سمجھ لیا گیا ہو اور اگر ان سنتوں کو کسی وقت سُستی کیوجہ سے چھوڑ دیا جائے تو اسے گناہ کہتے ہیں بدعت نہیں۔
آج کل کچھ لوگ بدعت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں
بدعت کی دو اقسام ہیں
۰۱- بدعت حسنہ: اچھا کام ایجاد کیا
جسے ایجاد کرنے والا بھی ثواب پائے گا اور عمل کرنے والا بھی
بدعت سیاہ: بُرا کام ایجاد کیا جسے ایجاد کرنے والا بھی گناہ گار ہے اور عمل کرنے والا بھی
حالانکہ ایسے لوگ صریح گمراہی پر ہیں جب کام ہی بُرا ایجاد کیا تو بدعت کیسی کیونکہ بُرا کام تو سیدھا سیدھا گناہ ہے
بدعت تو تب ہوگی جب وہ کام اچھا سمجھا جائے گا اور دین میں شامل کیا جائے گا
ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور اُمت کو بھی گمراہ کرتے ہیں
زرا غور کیجئیے حضور علیہ اسلام نے فرمایا ہر بدعت گمراہی ہے
اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے
جب پر بدعت کے بارے میں آقا دو جہاں ﷺ کی حدیث مبارک موجود ہے تو آج ہزار قسمیں ہی کیوں نا بنا لی جائیں بدعت گمراہی ہی رہیگی۔
بدعت اچھی ہو ہی نہیں سکتی۔
ارشاد باری تعالی ہے
آج کہ دن میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔
القرآن سورۃ المائدۃ آیت ۰۳
امام مالکؓ فرماتے ہیں جس نے اسلام میں کوئی نئی بات نکالی اور اُسے بدعت حسنہ سمجھا تو اُس نے یہ گمان کیا کہ حضرت محمد ﷺ نے رسالت پہنچانے میں خیانت کی۔ نعوذبااللہ
کیونکہ اللہ پاک نے فرما دیا ہے کہ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے لہذا جو چیز اُس دن دین نہیں تھی وہ آج بھی نہیں ہے
اور تا قیامت نہیں ہوگی۔
(Kitab ul Aitisaam 47/1, Jild 50/2, Lishatabi Bahawala Minhaj ul Wazeh, Page No.16)
اس بات کو آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہر اچھا کام جسے آپ اچھا سمجھتے ہیں وہ دین نہیں ہوا کرتا
کیونکہ دین تو وہی ہے جو نبی پاکؐ نے کیا اور کرنے کا حکم دیا یا صحابہؓ کو کرتے دیکھا اور منع نا کیا پہلے تمام انبیاءؑ کی شریعت میں لوگوں نے اسی طرح بدعت کو داخل کرکے تحریف کی تھی
وہ لوگ بھی اسی طرح اپنی مرضی کی باتیں بدعت حسنہ کہہ کر اپنے دین میں شامل کر دیتے تھے جس بات کو دل چاہتا مان لیتے اور جس بات کو دل نا مانتا انکار کردیتے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں تمام ایمان والوں کو حکم دے دیا کہ اللہ کی اتباع کرو اللہ کے رسولؐ کی اتباع کرو اب اگر ہم ان دونوں کو چھوڑ کر نفس کی اتباع کرینگے تو وہ دین کیسے ہو سکتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیں ایک کمرے میں ایک سائڈ پر کاغذوں کا ڈھیر ہے اور دوسری سائڈ پر ہزار کا نوٹ ہے تو بتاؤ چور کس چیز کو چُرائے گا۔
آپکا جواب ہوگا ہزار کا نوٹ چُرائے گا۔
کیوں : اس لئے کہ حکومت وقت نے اُس نوٹ کی اہمیت بتائی ہے
حالانکہ ہے تو وہ بھی ایک کاغذ ہی اور باقی کمرہ بھی کاغذوں سے ہی بھرا پڑا ہے مگر اس نوٹ والے کاغذ پر حکومت کی مہر اسٹامپ لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اُس کی اہمیت ہے
اسی طرح جس کام پر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی مہر اسٹامپ نہیں ایسے کام جتنے مرضی کرلئے جائیں اُن کی کوئی اوقات نہیں بالکل اُن کاغذوں کیطرح۔
لہذا عمل پر عمل ہے کیوں نا اُن اعمال کو سُنت کے مطابق ادا کیا جائے ؟ فضول کاموں سے بچا جائے اور دین محمدؐ پر ہی چلا جائے۔
نیک اعمال وہی ہیں جو شریعت نے ہمیں بتائے انسان کی خواہش پر کوئی دخل نہیں کہ اُس کی نیت پر فیصلے ہونے لگ جائیں گے
حضور ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
بعض لوگ اس کا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ ہماری نیت اچھی ہے اس لئے ہم جو بھی کرینگے ہمیں اُس کا ثواب ملے گا۔
یہ سوچ سراسر غلط ہے کیونکہ ثواب کے تمام کام رسول اللہ ﷺ اُمت کو بتا گئے اب اگر کوئی شخص اپنے ایجاد کردہ کام کو ثواب کا نام کہتا یا جنت میں لے جانے والا کام کہتا ہے تو یہ دین میں اضافہ بھی ہوا اور اللہ کے رسولﷺ پر رسالت نہ پہچانے کا بہتان بھی ہوا۔ نعوذبااللہ
اس کی مثال: یوں سمجھیں کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہو اور وہ سوچے ایک رکعت میں دو سجدے ہیں پر رکوع ایک ہے کیوں نا میں دو سجدوں کی طرح دو رکوع بھی کر لوں۔
اللہ کے آگے رکوع کرنا اچھا کام ہی ہے بُرا تو نہیں ہے
یا کوئی سوچے مغرب کی تین رکعت ہیں میں چار پڑھ لوں
اب نماز چار رکعت پڑھنا کوئی بُرا کام تو نہیں اور کرنے والے کی نیت بھی نماز کی ہی ہے
اب آپ بتائیں کیا ایسے شخص کی نماز ہوگی یقیناً آپ بھی کہیں گے کہ نہیں کیوں اس لئے کہ اُس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق نہیں کیونکہ اس طرح نبی پاکؐ نے نماز نہیں پڑھی اس لئے آپ نے کہا کہ نہیں ہوگی ۔
بالکل اسی طرح ہر وہ کام جو شریعت نے کرنے کو نہیں کہا یا شریعت سے ثابت نہیں وہ کام لاکھ اچھا ہی سہی اُس کی کوئی اوقات نہیں اللہ تعالی کہ ہاں اور رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اُس کی کوئی اہمیت نہیں
اسی طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جس کام سے شریعت نے منع نہیں کیا اُسے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کام کا شریعت نے حکم دیا ہمیں بس وہی کرنا چاہئیے۔۔۔
لہذا ہمیں تمام بدعات سے بچنا چاہئیے
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا
بدعتی کا اللہ پاک روزہ،نماز،صدقہ،حج،عمرہ،جہاد،فرض،نفل،
غرض کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں فرماتا وہ بدعتی اسلام سے
اس طرح نکل جاتا ہے جیسے آٹے میں سے بال۔ ابن ماجہ ۴۹
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں تمام خرافات و بدعتوں سے محفوظ فرمائے
اور صراط مستقیم پر چلائے۔آمین ثمہ آمین
وَ ما عَلَینا اِلاُّ البَلاغُ المُبین
 

Aliean

Mann'Chala ^^ !-!@!)G0nE/
TM Star
Jan 12, 2016
1,605
167
63
Albasuzaneade
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاۃ
بدعت کے متعلق ایک بڑی گمراہی
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
دو چیزیں ہیں ایک کلام اور دوسرا طریقہ پس سب سے بہترین کلام اللہ
کا کلام ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے
خبردار دین میں نئی نئی باتوں سے بچنا کیونکہ بدترین کام دین میں نئی
چیزیں پیدا کرنا ہے جبکہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ابن ماجہ حدیث نمبر ۴۶
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
جس نے ہمارے دین میں ایسی بات کا اضافہ کیا جو اس میں نہیں تو اس
کی بات اور اس کا عمل مردود ہے ابن ماجہ ۱۴
مسند احمد ، ترمذی ، اور ابو داؤد میں بھی یہ حدیث موجود ہے
رسول اللہ ﷺ نے بدعت کو گمراہی فرمایا اور بدعت دین میں نئی ایجاد کا نام ہے لہذا دنیا کی وہ ایجادات جن کا تعلق دین سے نہیں ہے
مثلاً ، کھانے ، ملبوسات ، اوزار ، آلات ، گھڑیاں وغیرہ
یہ چیزیں بدعت نہیں ہیں
بدعت کا اطلاق اُن کاموں پر ہوتا ہے جن کا اطلاق دین سے ہو
بدعت کی چار اقسام ہیں
۰۱- اعتقادی بدعت: جیسے شرک کی تمام قسمیں
۰۲- قولی بدعت: جیسے شرکیہ کلمات نئے نئے وظائف و اوراد وغیرہ۔
۰۳- فعلی بدعت: جیسے میلاد ، قُل ، تیجہ،ساتواں،دسواں،چالیسواں،
برسی،عُرس،میلے وغیرہ
۰۴- بدعت فش شرک: وہ تمام قولی اور فعلی سنتیں جن کو چھوڑنے کو دین سمجھ لیا گیا ہو اور اگر ان سنتوں کو کسی وقت سُستی کیوجہ سے چھوڑ دیا جائے تو اسے گناہ کہتے ہیں بدعت نہیں۔
آج کل کچھ لوگ بدعت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں
بدعت کی دو اقسام ہیں
۰۱- بدعت حسنہ: اچھا کام ایجاد کیا
جسے ایجاد کرنے والا بھی ثواب پائے گا اور عمل کرنے والا بھی
بدعت سیاہ: بُرا کام ایجاد کیا جسے ایجاد کرنے والا بھی گناہ گار ہے اور عمل کرنے والا بھی
حالانکہ ایسے لوگ صریح گمراہی پر ہیں جب کام ہی بُرا ایجاد کیا تو بدعت کیسی کیونکہ بُرا کام تو سیدھا سیدھا گناہ ہے
بدعت تو تب ہوگی جب وہ کام اچھا سمجھا جائے گا اور دین میں شامل کیا جائے گا
ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور اُمت کو بھی گمراہ کرتے ہیں
زرا غور کیجئیے حضور علیہ اسلام نے فرمایا ہر بدعت گمراہی ہے
اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے
جب پر بدعت کے بارے میں آقا دو جہاں ﷺ کی حدیث مبارک موجود ہے تو آج ہزار قسمیں ہی کیوں نا بنا لی جائیں بدعت گمراہی ہی رہیگی۔
بدعت اچھی ہو ہی نہیں سکتی۔
ارشاد باری تعالی ہے
آج کہ دن میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔
القرآن سورۃ المائدۃ آیت ۰۳
امام مالکؓ فرماتے ہیں جس نے اسلام میں کوئی نئی بات نکالی اور اُسے بدعت حسنہ سمجھا تو اُس نے یہ گمان کیا کہ حضرت محمد ﷺ نے رسالت پہنچانے میں خیانت کی۔ نعوذبااللہ
کیونکہ اللہ پاک نے فرما دیا ہے کہ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے لہذا جو چیز اُس دن دین نہیں تھی وہ آج بھی نہیں ہے
اور تا قیامت نہیں ہوگی۔
(Kitab ul Aitisaam 47/1, Jild 50/2, Lishatabi Bahawala Minhaj ul Wazeh, Page No.16)
اس بات کو آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہر اچھا کام جسے آپ اچھا سمجھتے ہیں وہ دین نہیں ہوا کرتا
کیونکہ دین تو وہی ہے جو نبی پاکؐ نے کیا اور کرنے کا حکم دیا یا صحابہؓ کو کرتے دیکھا اور منع نا کیا پہلے تمام انبیاءؑ کی شریعت میں لوگوں نے اسی طرح بدعت کو داخل کرکے تحریف کی تھی
وہ لوگ بھی اسی طرح اپنی مرضی کی باتیں بدعت حسنہ کہہ کر اپنے دین میں شامل کر دیتے تھے جس بات کو دل چاہتا مان لیتے اور جس بات کو دل نا مانتا انکار کردیتے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں تمام ایمان والوں کو حکم دے دیا کہ اللہ کی اتباع کرو اللہ کے رسولؐ کی اتباع کرو اب اگر ہم ان دونوں کو چھوڑ کر نفس کی اتباع کرینگے تو وہ دین کیسے ہو سکتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیں ایک کمرے میں ایک سائڈ پر کاغذوں کا ڈھیر ہے اور دوسری سائڈ پر ہزار کا نوٹ ہے تو بتاؤ چور کس چیز کو چُرائے گا۔
آپکا جواب ہوگا ہزار کا نوٹ چُرائے گا۔
کیوں : اس لئے کہ حکومت وقت نے اُس نوٹ کی اہمیت بتائی ہے
حالانکہ ہے تو وہ بھی ایک کاغذ ہی اور باقی کمرہ بھی کاغذوں سے ہی بھرا پڑا ہے مگر اس نوٹ والے کاغذ پر حکومت کی مہر اسٹامپ لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اُس کی اہمیت ہے
اسی طرح جس کام پر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی مہر اسٹامپ نہیں ایسے کام جتنے مرضی کرلئے جائیں اُن کی کوئی اوقات نہیں بالکل اُن کاغذوں کیطرح۔
لہذا عمل پر عمل ہے کیوں نا اُن اعمال کو سُنت کے مطابق ادا کیا جائے ؟ فضول کاموں سے بچا جائے اور دین محمدؐ پر ہی چلا جائے۔
نیک اعمال وہی ہیں جو شریعت نے ہمیں بتائے انسان کی خواہش پر کوئی دخل نہیں کہ اُس کی نیت پر فیصلے ہونے لگ جائیں گے
حضور ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے
بعض لوگ اس کا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ ہماری نیت اچھی ہے اس لئے ہم جو بھی کرینگے ہمیں اُس کا ثواب ملے گا۔
یہ سوچ سراسر غلط ہے کیونکہ ثواب کے تمام کام رسول اللہ ﷺ اُمت کو بتا گئے اب اگر کوئی شخص اپنے ایجاد کردہ کام کو ثواب کا نام کہتا یا جنت میں لے جانے والا کام کہتا ہے تو یہ دین میں اضافہ بھی ہوا اور اللہ کے رسولﷺ پر رسالت نہ پہچانے کا بہتان بھی ہوا۔ نعوذبااللہ
اس کی مثال: یوں سمجھیں کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہو اور وہ سوچے ایک رکعت میں دو سجدے ہیں پر رکوع ایک ہے کیوں نا میں دو سجدوں کی طرح دو رکوع بھی کر لوں۔
اللہ کے آگے رکوع کرنا اچھا کام ہی ہے بُرا تو نہیں ہے
یا کوئی سوچے مغرب کی تین رکعت ہیں میں چار پڑھ لوں
اب نماز چار رکعت پڑھنا کوئی بُرا کام تو نہیں اور کرنے والے کی نیت بھی نماز کی ہی ہے
اب آپ بتائیں کیا ایسے شخص کی نماز ہوگی یقیناً آپ بھی کہیں گے کہ نہیں کیوں اس لئے کہ اُس کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق نہیں کیونکہ اس طرح نبی پاکؐ نے نماز نہیں پڑھی اس لئے آپ نے کہا کہ نہیں ہوگی ۔
بالکل اسی طرح ہر وہ کام جو شریعت نے کرنے کو نہیں کہا یا شریعت سے ثابت نہیں وہ کام لاکھ اچھا ہی سہی اُس کی کوئی اوقات نہیں اللہ تعالی کہ ہاں اور رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اُس کی کوئی اہمیت نہیں
اسی طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جس کام سے شریعت نے منع نہیں کیا اُسے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کام کا شریعت نے حکم دیا ہمیں بس وہی کرنا چاہئیے۔۔۔
لہذا ہمیں تمام بدعات سے بچنا چاہئیے
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا
بدعتی کا اللہ پاک روزہ،نماز،صدقہ،حج،عمرہ،جہاد،فرض،نفل،
غرض کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں فرماتا وہ بدعتی اسلام سے
اس طرح نکل جاتا ہے جیسے آٹے میں سے بال۔ ابن ماجہ ۴۹
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں تمام خرافات و بدعتوں سے محفوظ فرمائے
اور صراط مستقیم پر چلائے۔آمین ثمہ آمین
وَ ما عَلَینا اِلاُّ البَلاغُ المُبین
:-w
 
Top