چنداماموں کا برساتی ایڈونچر
فرہان اب اٹھ جاؤ گیارہ بج چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔اماں کی کوئی پانچویں بار آواز میں سن چکا تھا ۔۔۔۔۔مگر کیوں اُٹھتا چھٹی تھی اور کرنے کو کیا تھا پچھلے چار دن سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی باہر جا نہیں سکتا تھا اور گھر میں بور ہونے سے بہتر تھا سویا رہوں ، پر اماں بھی ایک تھیں انھوں نے کام نکال ہی لیا ۔اور آرڈر جاری کیا کہ شاہدہ کو لے کر آؤ بہت دنوں سے یاد آرہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔چلو اب اُٹھو ۔۔لو جی اماں کو بجو کی یاد بھی آج ہی آنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔میں نے غصے سے تکیے کو دیوار پر دے مارا اور منہ بناتا اُٹھ گیا ۔۔ابھی ناشتے سے فارغ ہی ہوا تھا کہ امی نے دوبارہ کہا چلو اب جاؤ بھی ۔۔۔اماں بارش اتنے زوروں کی ہو رہی ھے رکنے تو دیں ۔۔۔میں نے بہانا بنایا ۔۔تو تجھے کون سا پیدل جانا ہے رکشہ یا ٹیکسی کرلینا ۔۔۔اماں نے اس بہانے کو مسترد کردیا ۔۔پر رکشہ یا ٹیکسی تک جانے کے لیئے بھیگنا تو پڑے گا ۔۔۔ میں نے ایک نیا بہانہ گھڑا ۔۔۔تو یہ چھتری نمائش کے لیے رکھی ہے اسے لے جاؤ ۔۔۔۔ اماں نے اس بہانے پر بھی پانی پھیر دیا ۔۔ابھی میں کوئی دوسرا بہانا سوچ ہی رہا تھا کہ چندا ماموں بیچ میں کود پڑےْْْ ۔۔۔ ارے چلو میاں ہم بھی چلتے ہیں کچھ خریداری کرنی ہے میں نے بے بسی سے ماموں کی طرف دیکھا ۔۔۔ جی ہاں چندا ماموں جن کا نام اشفاق حسین تھا اور ہم سب بچے ان کو چندا ماموں ہی کہتے تھے اماں کے چھوٹے بھائی تھے پندرہ سال ملک سے باہر گزار کر آئے تھے پرنا تو وہاں کوئی گوری پٹائی اور نا یہاں آکرشادی کی اماں سے بے حد محبت تھی لحاظہ ہمارے گھر میں ہی رہائش اختیار کر رکھی تھی ۔۔۔۔ویسے تو ماموں ایک دم پپو ماموں تھے پر اُن کی ایڈونچر پسند طبیعت ہمیں کبھی کبھی بھاری پڑتی تھی ۔۔سو اب بھی ان کی مداخلت نے مجھے پریشان کردیا میں نے کہا ماموں بہت زور کی بارش ہو رہی ھے بھیگ جائیں گے ۔۔۔فرمانے لگےمیاں کیا ہم صابن ہیں جو گھل جائیں گے ۔۔ارے یار تم بھی کیا جوان ہو اتنی دیر سے آپا کہے جارہی ہیں اور تم ہو کے مان ہی نہیں رہے چلو ہم بھی ساتھ چلتے ہیں ۔۔۔اماں نے فوراً بھائی کی بڑھ کر بلائیں لیں اور خود کچن کی طرف چل دیں ۔۔۔۔اور میں سٹور کی طرف بڑھا تاکہ چھتری لے سکوں ۔۔۔پیچھے سے ماموں نے آواز لگائی ارےفرہان میاں باہر کاراستہادھرہے۔۔میں نےکہا ماموں چھتری لاتاہوں۔۔۔جواباًبولے،لوسڑک تک بھیگنےسےبھی گھبراتےہوارےیا تم نے تو لڑکیوں سے بھی ذیادہ نازک طبیعت پائی ہے ۔۔۔بس اب حد ہو گئی اس جملے سے مجھے سخت چڑ تھی ۔۔میں نے بھی کچھ نہیں کہا اور خاموشی سے چل پڑا ۔۔بارش میں بھیگنا مجھے سخت ناپسند تھا کیوں کہ مجھے زکام ہو جاتا تھا پر اب غیرت میں آکر بغیر چھتری کے ہی نکل آیا اب جو موسلادھار بارش نے استقبال کیا تومجھے چھینکیں شروع ہو گئیں اور ماموں مجھے دیکھ دیکھ کر اینجوائے کررہے تھے ۔۔اور ساتھ ساتھ میں کہے بھیجارہے تھے ارے ہم جوان تھے تو سخت سردی کی بارشوں میں بھی بھیگا کرتے تھے اور یہ تو ساون کی بارش ہےیار تم تو زندگی کا مزا ہی نہیں لیتے میں بس منہ بنائے خاموشی سے چل رہا تھا گلیوں میں پانی اتنا تھا کہ لگتاتھا یہاں نہریں بہتی ہیں میرے بوٹوں میں پانی بھر گیا تھا اور چلتے شوں شڑپ کی آوازیں نکل رہی تھیں ...اور میں ماموں کے ایڈونچر کا شکار بنا کھول رہا تھا ۔۔۔ خدا خدا کر کے ہم تنگ گلیوں کے نہری نظام سے نکلے سوچا چلوسڑک پر کوئی رکشہ ٹیکسی پکڑیں گے پر لیجیے یہاں تو پورا دریائے کابل ہمارا منتظر تھا بیس فٹ چوڑی سڑک پرہر طرف پانی ہی پانی تھا جہاں پانی نہیں تھا وہاں کیچڑ بھر ہوا تھا صرف فٹ پاتھ ہی بچے تھے ایسا لگتا تھا کہ دریائے کابل کو شھر کا وزٹ کرنے کی سوجھی اور اس نے بہن بارش سے مدد مانگی جو اس نے دل کھول کر کی اور یوں وہ دندناتے شہر کے ندی نالوں سے ملنے گھس آئے ۔۔میں نے جب صورت حال دیکھی تو فوراً ہی واپسی کا ارادہ باندھا ۔کہ اگر پار چلے گئے اور بجو کے گھر پہنچ بھی گئے تو بجو کو کس میں لے کر آئیں گے روڈ پر نہٹیکسی تھی نہرکشہکیاپالکی میں بٹھاکرلائیں گےپرماموںتومسلسل آگےبڑھنےکےموڈمیں تھےکہنےلگےارےمیاںاتناساتوپانی ہے اور پھر ایک شعر کا بیڑا غرق کرتے ہوئے بولے کون کہتا ہے کہ اشفاق حسین ڈر جائے گا
یہ تو دریا ہے سمندر میں اُتر جائے گا
اور پھر سڑک پر کوئی چیز تلاش کرنے لگے جس پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھا جا سکے میں بھی اسی تلاش میں مصروف ہو گیا اتنے میں ماموں پر جب نظر پڑی تو وہ زقند بھرنے کے لیے پر تولتے نظر آئے میں نے ان کی نظروں کی کھوج میں جب دیکھا تو مجھے سڑک کے درمیان سے تھوڑا پہلے ایک سخت سا اینٹ نما ٹکڑا نظر آیا جس پرپاؤں دھرنے کو ماموں تیار تھے پر میں نے جب غور کیا تو پیکنگ میں استعمال ہونے والا فوم محسوس ہوا ۔اس سےپہلے کے میں ماموں کو خبردار کرتا ماموں عقاب کی طرح جھپٹ چکے تھے مگر پیکنگ فوم کو ماموں کی یہ ادا پسند نہیں آئی سو وہ ان کے لینڈ کرنے سے پہلے ہی اپنی جگہ سے کھسک لیا اور ماموں سیدھا کیچڑ بھرے پانی میں شڑپ اور دھم کی آواز کے ساتھ جا گرے میں ایک لمحے کو تو سکتے میں آگیا ماموں اُٹھ کر کیچڑ میں آلتی پالتی مار کر یوں بیٹھ گئے جیسے ابھی آسمان سے لذیذ کھانے کے خوان اتریں گے وہ ہونک بنے اُس جعلی اینٹ کو تلاش کرہے تھے جو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئی تھی مجھے ماموں کی حالت دیکھ کر ہنسی آرہی تھی اور میں منہ پھیر کر اپنا شوق پورا کرنے لگا پر اپنا شوق ذیادہ دیر پورا نہ کر سکا مجھے ماموں کی دھاڑ نے اپنی طرف متوجہ کرلیا ۔۔۔۔کیا گدھوں کی طرح وہیں کھڑے رہو گے یاہمیں اٹھاؤگے۔۔۔سومیں بادل نخواستہاس پانی میں اترگیابڑی مشکل سےماموںکواُٹھایا۔۔۔ماموںاسوقت بلکل اس دلہےکیطرح لگ رہےتھےجن کےبدمست دوستوںنےانھیں مہندی کی رسم کانشانہبنایہہومیں اپنی ہنسی روکنےکی ناکام کوشش کرہےتھااب بجوکےگھرجانےکاارادہ کینسل ہوگیاپرمیں بضدتھاکےچلوماموںشاپنگ ہی کرلیں اس حلیےمیں ایک یادگارایڈونچرہوجائےگاپرماموںکیاوئی آئی سن کرمجھےاحساس ہواکہماموںکوچوٹ ذیادہلگیہےلحاظہمیںشرافتسےانھیںتقریباًگھسیٹتےہوئےگھرلےآیادروازےسےداخلہوتےہیٹائیلکےفرشپرایکبارپھرپھسلےاوردھڑامسےفرشبوسہوگئے۔اماںصحن کےقریب ہی تھیں یااللہخیرچلائیں اورہماری طرف بھاگیں ماموںکاحلیہ دیکھ کراماںنےتوآسمان سرپراٹھالیاہائےمیرے
معصوم بھائی کوکیاہواماموںکی شاعری کی رگ وہاں بھی پھڑکی اوربولےآپاکچھ نہیں ہوا بس
جھپٹنا،اچھلناپھسلنااورگرنا
لہوگرم رکھنےکاہےاک بہانا
میں نےدلہی دل میں علامہمرحوم سےمعافی مانگی اوراستدعاکی کےماموںکادماغ کام نہیں کررہا۔۔۔۔۔ہائےمیں ماںکوکیامنہدکھاؤںگی کہایک بھائی نہ سنبھال سکی۔۔اماںنےتوگویاباقاعدہاحتجاجی مظاہرہ شروع کردیا۔۔میں نےٹوکا کہ نانو ہیں کہاں جوان کومنہدکھاناپڑےگاان سےتوملنےبھی شھرخاموشاںجاناپڑےگااوراس برسات میں توممکن نہیں ہے۔۔۔چپ اوئے۔۔اماںنےفوراًہی اپناغم ہم پراتاراادھرآؤاورماموںکواُٹھاؤ۔۔میں ایک بارپھراپنےناتواں بازؤں کےزورپرماموںکواٹھانےمیں لگ گیا
ماموںکوکمرپرشدیدچوٹ لگی تھی دوہفتےتووہ بسترسےنہیں ہلے۔۔اس دن کےبعدسےماموںنےبرسات میں کبھی ایڈونچرکاپروگرام نہیں بنایا۔بلکہ ہلکی سی بارش شروع ہوتےہی اپنےکمرےمیں جاگھستےہیں کہ مباداکوئی باہرجانےکا نہ کہدے۔اب اگران کےسامنےکوئی برسات کی تعریف کردےتوماموںٹھنڈی آہ بھرکےمرزاغالب مرحوم کےشعرکاتیاپانچہکردیتےہیں
ہم کومعلوم ہےبرسات کی حقیت لیکن
دل کےخوش رکھنےکواشفاق یہخیال اچھا ہے
آفاق علی
[DOUBLEPOST=1348570456][/DOUBLEPOST]@Mamin Mirza,@hurain,@zoonia,[DOUBLEPOST=1348571187][/DOUBLEPOST]