جنگ کا مفہوم اب صرف فوجوں اور عسکری معرکہ آرائیوں تک ہی محدود نہیں رہا، آج جنگیں کئی طرح کی ہیں جن میں ایک کارپوریٹ اداروں کی جنگ بھی شامل ہے۔
ہم سب لفظ کمپیٹیٹر (competitor) کا مفہوم بخوبی سمجھتے ہیں یعنی وہ دوسرا شخص یا ادارہ جو آپ ہی کے شعبے میں کام کرتا ہے، مگر بزنس کی دنیا میں ایک اصطلاح rival کی بھی ہے جو کہ روایتی حریف سے کہیں بڑھ کر ہے، جب کوئی کمپنی میرے لیے رائیول ہو تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے اپنی پوری قوت صرف کر کے اسے مارکیٹ سے نکال کر اس کی جگہ بیٹھنے کی سعی کرنی چاہیے۔
گوگل اور مائیکروسافٹ محض حریف نہیں بلکہ رائیولز ہیں کیونکہ وہ دونوں تقریباً ایک جیسے شعبوں میں کام کرتے ہیں جیسے سرچ انجن، آپریٹنگ سسٹم اور ایپلی کیشنز وغیرہ، چنانچہ دونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ان شعبوں سے کسی بھی طرح نکال باہر کریں اوراس کی جگہ براجمان ہوجائیں۔
عام طور پر یہ دونوں حریف ایک دوسرے پر براہ راست حملوں سے گریز کرتے ہیں، مگر جب کوئی طریقہ کام نہ کر رہا ہو تو یہ آپس میں گھمسان کی جنگ شروع کردیتے ہیں اور ایسی مصنوعات منظرِ عام پر لاتے ہیں جس میں اس کا حریف �کھا کما� رہا ہوتا ہے چاہے کبھی کبھی اس کی نقل ہی کیوں نہ کرنی پڑجائے۔
گوگل کی طرف سے ایک خطرناک حملہ اس کا آپریٹنگ سسٹم کروم تھا جس کے ذریعے گوگل نے مائیکروسافٹ کو یہ پیغام پہنچایا کہ بس اب تمہارے آپریٹنگ سسٹم کی اجارہ داری بہت ہوچکی اب دنیا میں نمبر ایک بننے کی میری باری ہے۔
آپریٹنگ سسٹمز کے میدانِ خارزار میں گوگل اپنے ہلکے پھلکے، مفت اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ پر انحصار کرتے سبک رفتار آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ آن وارد ہوا، اگر گوگل صارفین میں اسے اچھی طرح سے مقبول بنانے اور اپنی باقی خدمات سے اسے منسلک کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ونڈوز کو یقینا شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے اور اس کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ مائیکروسافٹ کی تقریباً نصف آمدنی اس کے آپریٹنگ سسٹم ونڈوز پر منحصر ہے۔
تاہم مائیکروسافٹ بھی خاموش بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہے، اس نے بنگ (Bing) سرچ انجن کے ذریعے جوابی حملہ کیا تاکہ تلاش کے شعبے میں گوگل کی اجارہ داری کو محدود کرتے ہوئے اپنے حصے میں اضافہ کر سکے۔ مائیکروسافٹ، گوگل کو اپنے راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا چاہے اس کے لیے اسے دوسری کمپنیوں سے تکلیف دہ معاہدے ہی کیوں نہ کرنے پڑجائیں یا کچھ اداروں کو خریدنا ہی کیوں نہ پڑے جیسے یاہو! کو خریدنے کی کوشش جو تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہوسکی۔
تاہم سوال یہ ہے کہ مائیکروسافٹ کو اتنی پریشانی کیوں لاحق ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے آپریٹنگ سسٹمز، آفس اور بزنس کے دیگر شعبوں کی طرح انٹرنیٹ پر مرکزی کھلاڑی بننے کے لیے خطیر رقوم اور وسائل صرف کیے ہیں۔
جنگ کے دس اسباب
1- آپریٹنگ سسٹم
گوگل: گوگل نے سامسنگ کے ذریعے اپنے لینکس پر مبنی کروم آپریٹنگ سسٹم سے لیس لیپ ٹاپ مارکیٹ میں پیش کردیے ہیں۔ دنیا میں اس وقت کلاؤڈ کمپیوٹنگ کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے اور کمپنی اس رجحان کو مزید تقویت دینے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کرے گی۔
مائیکروسافٹ: آپریٹنگ سسٹمز کی مارکیٹ میں اس وقت ونڈوز کا حصہ تقریباً 84.83% ہے جو گزشتہ پانچ سالوں کے دوران واضح طور پر کم ہوا ہے جو کہ پہلے نوے 90% فیصد سے بھی کہیں زیادہ تھا۔
خطرہ: یہاں مائیکروسافٹ کو ایک بہت بڑے خطرے کا سامنا ہے، گوگل جو اپنے آپریٹنگ سسٹم کروم سے حملہ آور ہوا ہے اسے عالمی پیمانے پر پھیلانے اور اس کے لیے درکار وسائل دستیاب کرنے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف آپریٹنگ سسٹمز کی مارکیٹ سے مائیکروسافٹ کے شیئرز میں کمی آرہی ہے جو اسے سالانہ کوئی گیارہ ارب ڈالر کا منافع دیتا ہے۔ گوگل کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس شعبے میں مائیکروسافٹ کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے اپنے آپریٹنگ سسٹم کو اپنی مختلف خدمات سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرے جن کا پہلے ہی صارفین کا ایک بہت بڑا حلقہ موجود ہے خاص طور سے جی میل۔
مائیکروسافٹ اس کوشش کے جواب میں اپنے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم میں بھی جدت پیدا کررہا ہے۔ ونڈوز 8 کی صورت میں مائیکروسافٹ اپنے آپریٹنگ سسٹم میں ایک بڑی تبدیلی لے آیا ہے۔ ساتھ ہی سرور آپریٹنگ سسٹمز میں بھی مائیکروسافٹ بہتری پیدا کررہا ہے تاکہ صرف ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز پر ہی نہیں، سرور آپریٹنگ سسٹمز پر بھی ونڈوز کا استعمال بڑھ سکے۔ لیکن اس میدان میں اسے لینکس اور یونکس سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ گوگل کروم بہرحال سرورز کے میدان میں مائیکروسافٹ کے ساتھ مقابلے پر نہیں ہے۔
2- تلاش
گوگل: عالمی پیمانے پر انٹرنیٹ پر تلاش کے شعبے میں گوگل کا حصہ کوئی 81.73% ہے، جبکہ اگر امریکی مارکیٹ کا ہی جائزہ لیا جائے تو گوگل کا حصہ 65% سے بھی
کہیں زیادہ ہے۔ تلاش کے شعبے پر گوگل کی اجارہ داری اسے سالانہ 16 ارب ڈالر کا منافع کما کر دیتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ سرچنگ ہی گوگل کی اصل وجہ شہرت ہے تو غلط نہ ہوگا۔
مائیکروسافٹ: تلاش کے شعبے میں مائیکروسافٹ کئی دفعہ لڑکھڑایا ہے، تاہم آخر کار اس نے ��بِنگ�� (Bing) کی شکل میں اپنا سرچ انجن �ری ڈیزائن� کیا اور اس کی مارکیٹنگ کے لیے صرف امریکا میں کوئی 80 ملین ڈالر خرچ کردیے، تاہم اس سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور امریکی مارکیٹ میں بنگ کا حصہ صرف 8.4% تک ہی پہنچ پایا جبکہ عالمی پیمانے پر یہ حصہ کسی طور 4.43% سے زیادہ نہیں ہے جو یاہو! سے بھی کم ہے۔ حتی کہ Baiduکبھی اس سے زیادہ استعمال کیا جانے والا سرچ انجن ہے۔ اس کے باوجود کمپنی کے ڈائریکٹر اسٹیو بالمر نے تلاش کے شعبے میں اگلے پانچ سالوں تک سالانہ دس ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے، یاہو کے ساتھ کسی طرح کی کوئی ڈیل (Deal) تلاش کے شعبے میں مائیکرو سافٹ کے حصے میں کئی گنا اضافہ کر سکتی ہے کیونکہ امریکہ میں یاہو کافی مقبول ہے۔لیکن تاحال یاہو! نے مائیکروسافٹ کی کسی آفر کا مثبت جواب نہیں دیا۔ یاہو! کا خیال ہے کہ مائیکروسافٹ اس کی بولی بہت کم لگا رہا ہے۔
خطرہ: تلاش کے اشتہارات ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور گوگل کے لیے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے ایسی کئی دیگر مصنوعات کو مالیاتی معاونت دی جاسکتی ہے جن پر آغاز میں کافی رقم خرچ ہوتی ہے جیسے کروم آپریٹنگ سسٹم اور شروعات میں یوٹیوب۔
3- ای میل
گوگل: گوگل نے اپنی جی میل نامی ای میل سروس کا آغاز 2004ء میں کیا تھا، اس کی اہم خوبیوں میں دس گیگا بائٹس جگہ اور 54 زبانوں میں اس کی دستیابی ہے۔ گوگل کی اس ای میل سروس کو اس وقت کوئی کروڑوں صارفین استعمال کرتے ہیں۔ گوگل کی کوشش ہے کہ ادارے اسے گوگل ایپس کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسے اپنے ڈومین کے ساتھ منسلک کر لیں۔ یوں ای میل سروس کے طور پر اس کی حیثیت اور اہمیت میں کافی اضافہ ہوگا جو صرف عام صارفین تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اسے اداروں کا اعتماد بھی حاصل ہوگا۔ کئی بڑے ادارے پہلے ہی گوگل ایپس پر منتقل ہوچکے ہیں۔
مائیکروسافٹ: آخری دستیاب اعداد وشمار گزشتہ سال کے ہیں جب کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ اس کے پاس 350 ملین فعال صارفین ہیں جبکہ ماہانہ کوئی 343 ملین صارفین اسے استعمال کرتے ہیں۔ جی میل کے مقابلے میں تھوڑی ہی سہی، لیکن یہ تعداد بھی بہت ہے۔
خطرہ: سب سے بڑا اور نمایاں خطرہ صارفین کی آمد یعنی زیارتوں (Visits) اور اشتہارات سے حاصل کردہ منافع ہے کیونکہ ای میل روزانہ وزٹس کی ایک بڑی تعداد پیدا کرتا ہے کیونکہ زیادہ تر صارفین انٹرنیٹ پر کوئی اور ویب سائٹ دیکھیں یا نہ دیکھیں، دن میں ایک مرتبہ اپنی ای میل ضرور چیک کرتے ہیں۔مزید برآں ای میل صارفین کو کمپنی کی دیگر خدمات استعمال کرنے پر راغب کرنے کا ایک اچھا ذریعہ بھی ہے۔
4- آفس سافٹ ویئر
گوگل: گوگل ڈاکس کے ذریعے گوگل نے دفتری سافٹ ویئر کے پلیٹ فارم کو کلاؤڈ پر منتقل کرنے کی کوشش کی اور ایسی خوبیاں پیش کیں جو عام آفس سافٹ ویئر میں ناپید ہیں جیسے کئی لوگ بیک وقت ایک ہی دستاویز (Document)میں تدوین (Edit) کرنا، آسان ہم آہنگی اور محفوظگی اور کسی بھی کمپیوٹر سے جو انٹرنیٹ سے منسلک ہو ان دستاویزات تک آسان رسائی۔ اس ضمن میں گوگل نے صرف مائیکروسافٹ ورڈ کا متبادل ہی پیش نہیں کیا بلکہ ایک بھرپور آفس پیش کیا جس میں ایکسیل اور پاور پوائنٹ کا متبادل بھی موجود ہے۔ مزید برآں گوگل ایپس (Google Apps) میں شامل آفس سافٹ ویئر میں ای میل کلائنٹ اور کلینڈر بھی شامل ہے۔
مائیکروسافٹ: اس کا سب سے بڑا ہتھیار وہی جانا پہچانا اور روایتی سافٹ ویئر پر مشتمل آفس ہے۔ چاہے اس فہرست میں وہ نئے سافٹ ویئر بھی شامل کر لیے جائیں جو حال ہی میں پیش کیے گئے ہیں۔ لیکن مائیکروسافٹ اب آفس کو بھی کلائوڈ کمپیوٹنگ کی طرف لے جارہا ہے اور مائیکروسافٹ آفس کا اگلا ورژن ان تمام خوبیوں سے مزین ہوگا۔
خطرہ: مائیکروسافٹ کے لیے آفس پائیریسی کے باوجود آمدنی کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ تیسری دنیا میں اگرچہ مائیکروسافٹ آفس کے خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن اس کے باوجود امریکہ ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والی مائیکروسافٹ آفس کی فروخت پائریسی کے نقصانات کو گہنا دیتی ہے۔ اس وقت بھی مائیکروسافٹ آفس سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آفس سوٹ ہے۔ گوگل نے اپنی ڈاکس اپنی کلاؤڈ سروس سے منسلک کردی ہیں جس سے وہ کئی محاذوں پر حملہ آور ہونے کے قابل ہوگیا ہے۔ کیونکہ صارفین کو ایک اچھی خاصی اسٹوریج سمیت ایک مفت آفس دستیاب ہوگیا ہے جس میں ایسی خوبیاں بھی شامل ہیں جو ڈیسک ٹاپ آفس میں دستیاب نہیں اور جو مفت بھی نہیں ہے۔
5- سوشل نیٹ ورک
گوگل: گوگل پلس سے بہت پہلے، 2006 میں اشتہارات اور تلاش کے نتائج کے حوالے سے گوگل نے 900 ملین ڈالر مائی اسپیس کو دینے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اورکٹ بھی گوگل کے لئے ایک ناکام کاروبار ثابت ہوا۔ اس کے بعد سے گوگل نے اپنا ذاتی سوشل نیٹ ورک بنانے کی کوششیں شروع کردیں چاہے وہ گوگل ویوو (Google Wave) ہو جس نے ای میل کو سوشل نیٹ ورکس کے ساتھ ضم کردیا مگر کامیاب نہ ہوسکا یا گوگل بز (Google Buzz) ہو جو سوشل نیٹ ورکس کا ایک خاص مفہوم لیے ہوئے تھا مگر اپنی زندگی پوری نہ کر سکا۔ گوگل نے گوگل پلس کافی تاخیر سے پیش کیا اگرچہ اس بار اس نے اپنے سابقہ تجربات سے کافی کچھ سیکھا بھی ہے تاہم اس وقت مقابلہ بہت سخت ہے کیونکہ فیس بک اور ٹویٹر تو موجود ہیں ہی، مائیکروسافٹ بھی راستے میں ہی ہے۔
مائیکروسافٹ: 2007 میں مائیکروسافٹ نے فیس بک میں ایک معمولی سا حصہ خریدا جو محض 1.6% سے زیادہ نہیں ہے مگر اس وقت اس کی قیمت 240 ملین ڈالر تھی۔ مزید برآں مائیکروسافٹ نے اشتہارانہ حقوق کے لیے فیس بک کو مزید کوئی 150 ملین ڈالر بھی ادا کیے۔ مائیکروسافٹ نے اپنا سوشل نیٹ ورک کچھ ذرا شرماتے شرماتے لانچ کیا کیونکہ وہ گوگل پلس اور فیس بک کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ایسا سوچنا فی الوقت عقل مندی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ مائکرسافٹ نے اپنا سوشل نیٹ ورک محض طالب علموں کے لیے مخصوص قرار دیا اور کہا کہ یہ عام سوشل نیٹ ورکس سے مختلف ہے اور اس کا ان سے مقابلہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
خطرہ: معلوم ہوتا ہے کہ مائیکروسافٹ سوشل کے پاس طالب علموں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ اقدام کچھ کچھ فیس بک سے مشابہت رکھتا ہے جو جامعات (Universties) سے شروع ہوا اور ساری دینا میں پھیل گیا۔ یہاں خطرہ یہ ہے کہ گوگل سوشل کے صارفین کو اپنے نیٹ ورک پر کھینچ لے اور مائیکروسافٹ کا سوشل ناکامی سے دوچار ہوجائے۔ لیکن فیس بک کی موجودگی میں اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو شاید مائیکروسافٹ کے لئے اتنے خطرے کی بات نہیں۔ سوشل نیٹ ورک بنانا مائیکروسافٹ کا اس میدان میں موجودگی کا احساس دلانے اور اپنے صلاحیتوں کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔
6- پورٹل اور اشتہارات
گوگل: اشتہارات کی فروخت کے لیے گوگل کے پاس اگر کوئی پورٹل ہے تو وہ صرف یوٹیوب ہے، یوٹیوب میں سرمایہ کاری کافی مہنگی ثابت ہوئی تاہم کارگر رہی اور 2009 کے نصف سے کمپنی کو اس سے منافع ملنا شروع ہوا۔
مائیکروسافٹ: مقبولیت میں ایم ایس این، اے او ایل اور یاہو کے بعد سب سے زیادہ مقبول پورٹل ہے، اب بھی تقریباً 100 ملین صارفین ہر ماہ اسے شرفِ زیارت بخشتے ہیں جس کی ایک وجہ اس کا میسنجر کے ساتھ منسلک ہونا بھی ہے۔
خطرہ: 2008ء میں مقبول پورٹلز پر اشتہارات کی مد میں 4 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ چونکہ زیادہ تر مشتہر اداروں کا تعلق ٹیلی ویژن سے تھا چنانچہ ان اداروں کا رجحان بھی اب ویڈیو اشتہارت کی طرف ہو رہا ہے۔ یوں گوگل ایم ایس این کے اشتہارات کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کرنے کے درپے ہے اگرچہ ایم ایس این پر متنوع ویڈیو کلپس حتیٰ کہ اخباری رپورٹیں تک موجود ہیں مگر یوٹیوب سے اس کا یقیناً کوئی مقابلہ نہیں۔