History Muje Mera Pakistan Wapiss Do ↓↓

  • Work-from-home

Umm-e-ahmad

Super Star
Feb 22, 2010
11,352
5,314
1,313
home
{}{r54

یہ میرا ملک نہیں ہو سکتا جہا ں ہر طرف خون ہی خون ہے ۔ یہاں تو اسکولوں کو بموں سے تباہ کیا جا رہا ہے ، غیر ملکی فوج آتی ہے اور غیر ملکی اور ملکی شہریوں کو مار کر یا زندہ پکڑ کر لے جاتی ہے ، جہاں مسجدیں دھماکوں سے لرز جاتی ہیں ، نمازی شہید ہوتے ہیں ۔ یہ وہ پاکستان تو نہیں جہاں گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دیوانے ۔

یہ میرا پاکستان نہیں جہاں خوداری اور خود مختاری نام کی کوئی چیز نہیں ، یہاں تو ہم فرقوں ، قومیتوں میں بٹ گئے ہیں ، یہ وہ ملک تو نہیں جہاں میرے اقلیتی ہم وطن ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ مجھے تو وہ پاکستان چاہیے جہاں بلا خوف و خطر بچے کرکٹ ، ہاکی ، فٹبال کھیل کر گھر واپس جاتے تھے نہ کہ آج کا پاکستان جہاں ماں کو یہ خوف رہتا ہے کہ دیر کی صورت میں بچے کی لاش نہ واپس آئے ۔

میرے پاکستان میں اسکولوں میں بچوں میں فرقوں کی بنیاد پر اسلامیات نہیں پڑھائی جاتی تھی، وہاں تو سب طالب علم کی حیثیت سے ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے تھے ۔آج میں 53 سال کا ہوں جیسا بچپن ، لڑکپن اور جوانی میں نے گزاری مجھے اپنے بچوں کی نظر نہیں آتی ۔ آج کوئی محلہ کلچر نہیں ، آج کے بچے کھلاڑیوں سے زیادہ خود کش بمبار وں کو جانتے ہیں اور اب تو یہاں کوئی کھیلنے بھی نہیں آتا ۔ میرا پاسپورٹ جو میری پہچان ہوتا تھا آج شرمندگی کا باعث ہے ۔

کبھی آپ نے سوچا یہ سب کس لئے ہوا ؟ یہ پر امن پاکستان 30 سال میں تشدستان کیسے بن گیا ؟ ہم نے کسی ملک سے جنگ نہیں کی پھر بھی 35 ہزار فوجی شہید ہو گئے اور ہزاروں معذور ۔ یہ سب غیر ملکیوں کو اپنے ملک بلا کر ایک دوسرے ملک میں جہاد کے نام پر کیا ۔ پھریہی ہزاروں غیر ملکی یہاں رہ گئے ۔شاید انہی میں اسامہ بن لادن نام کا بھی ایک شخص تھا اور اس کے ساتھی ۔

کاش ہم یہ سمجھ سکتے کہ ہم ایک ایسے طوفان کی جانب بڑھ رہے ہیں جو ہماری آنے والی نسلوں کو تباہ کر دے گا ۔ یہ قائد اعظم کے پاکستان کو تقسیم کر کے اسامہ اور اوبامہ کا پاکستان بنا دے گا ۔ کاش جنر ل ضیاء ، جنرل حمید گل ، جنرل اختر عبدالرحمن جیسے لوگ آنے والے خطرات کو محسوس کر سکتے کہ اس افغان پالیسی سے ہمارے بچے گھروں سے باہر نکلے تو کسی کی گولی کی زد میں آ سکتے ہیں ۔ مجھے اپنے بچوں اور ان جیسے لاکھوں بچوں کے لئے کھیلوں کے میدان چاہیں ناکہ جنگی میدان ۔

ذرا غور کیجئے چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا ۔ 61سال میں ایک سپر پاور بنا ، ایٹمی قوت بھی بنا اور معاشی قوت بھی اور اپنی آبادی کوبہترمقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ آج چین اپنے حریف امریکہ اور بھارت سے بہتر تعلقات بنا رہا ہے اور آپ کو مشورہ دے رہا ہے کہ شدت پسندی کی لہر سے ملک تباہ ہو جائے گا ۔

دوسری طرف ہم ہیں جنہوں نے1947 میں ایک ایسا ملک بنایا جو ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے تھا مگر جہاں غیر مسلموں کو اپنی عبادت اور رسومات اپنے عقیدوں کے مطابق ادا کرنے کی اجازت ہو گی ۔ مگر ہم نے اپنی آزادی کے صرف پہلے پانچ سال میں ہی فیصلہ کر لیا کہ ہم روس کے خلاف امریکی اتحادی بنیں گے ۔ بات صرف ایسی ہی ہوتی تو کوئی بات نہیں ، ہم خود تو کوئی قوت بنتے ۔ جس طرح مغرب میں تعلیم اور صحت ایک عام آدمی کے لئے مفت ہوئی ہے ( ایک خاص عرصے تک ) ہم ملک کو کوئی آئین دینے ، بھارت کی طرح جاگیردارانہ نظام ختم کرتے ، صوبوں کو ان کے حقوق دیتے ۔ ان 63 سالوں میں ہم نے امریکہ سے دوستی امریکی مفاد کے لئے کی نہ کہ پاکستان کے مفاد کے لئے۔ پہلے ہم روس و چین کے خلاف امریکی اتحاد ی بنے اور پاکستان میں بائیں بازوکو ختم کیا پھر ہم امریکی اتحادی بنے اور کل کے مجاہدین کو آج کا دہشت گرد قرار دیا ۔

بات یہیں تک رہتی تو غنیمت تھا ہم نے تو لاکھوں غیر ملکیوں کو اپنا بنا لیا جبکہ وہ اپنے نہیں تھے اور جو اپنے تھے ان کو ڈھاکہ میں ہی رہنے کا مشورہ دیا ، ہم یہیں نہیں رکے ہم نے آہستہ آہستہ ان انتہا پسندی کے نظریات کو اپنے محلے اور گلیوں میں جانے کی اجازت دی �اختلاف رائے � کو گردن زدنی قرار دیا ۔

ہم ایٹمی قوت بن گئے مگر معاشی بدحالی سے دو چار ، آج دور دور تک کوئی آپ کا اتحادی نظر نہیں آتا سوائے چین کے کہ جس کی باتوں پر ہم نے عمل نہ کر کے بہت نقصان اٹھایا ۔ دنیا کا سفر تعلیم ، صحت ، پینے کا صاف پانی ، معاشی خوشحالی میں آگے کی جانب ہے مگر ہمارا پیچھے کی جانب ہے ۔

آج کے پاکستان میں ہماری ترجیحات ہمیں تباہی کے سوا کچھ نہیں دیں گی ، ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی کسی سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ ہمارے ہیرو کی فہرست میں کوئی ڈاکٹر ادیب رضوی اور ستار ایدھی یا ڈاکٹر عبدالسلام نہیں ، ہم لسانیت اور فرقوں میں ایسے بٹ گئے ہیں کہ ایک دوسری کی بات سننے کو تیار نہیں ، ہم میں قوت برداشت ختم ہو چکی ہے ، ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو یا تو بیچ رہے ہیں یا قتل اور یا اجتماعی خود کشی ۔

ایران میں انقلاب اور روس میں بڑی تبدیلیوں نے ان ممالک میں نظام بدلا مگر پاکستان میں غیر ملکیوں کا سونامی ہمارا سب کچھ لے گیا ۔ یہ ایسا سیلاب تھا جس نے پاکستان میں منفی رجحانات کو فروغ دیا ۔ 30 لاکھ افغان ، مصری ، سعودی ، یمنی ، ازبک ، چیچن ، ایرانی پاکستان میں بغیر کسی دستاویزات کے 30 سال سے رہائش پذیر ہیں اور ایسے بس گئے کہ ان کے اپنے ملکوں نے ان کو لینے سے انکار کر دیا ۔ پاکستان ایک ایسے کیمپ کی مانندہو گیا جہاں جس کا بس چلے آکر بسیرا کر سکتا ہے ۔

مجھے قائد اعظم کا پاکستان ختم ہوتا نظر آ رہا تھا ۔ 1980 میں پاکستان کے شہروں ایرانی گروہوں میں لڑائی شروع ہو گئی ۔ خمینی کے مخالف مجاہدین حلق اور حامی پاسداران نے ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیا ، گھروں کو دھماکوں سے تباہ کرنے کے واقعات ہونے لگے ۔ مگر ہم خاموش رہے ، ہماری پالیسی بنانے والے خطرات سے یا تو لا علم رہے یا کوئی فیصلہ نہ کر سکے ۔

مجھے 1987 کا صدر بم دھماکا آج تک یاد ہے ۔ صحافت میں آئے ہوئے 6 سال ہو چکے تھے ۔ شاید یہ پاکستان کی تاریخ کے آج تک ہونے والے بم دھماکوں میں سب سے شدید تھا جس میں 150 سے زائد افراد جاں بحق اور 250 کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ الزام روایتی طور پر روس کی کے جی بی اور اسرائیل کی موساد پر لگایا گیا مگر اپنے گریبان میں ہم نے جھانکنے کی کوشش نہیں کی کہ ہم ملک کو کس طرف دھکیل رہے ہیں ۔ اوجڑی کیمپ سے بھی آنکھ نہیں کھلی جب پنڈی ، اسلام آباد پر راکٹوں کی بارش ایسی ہوئی کہ لوگ سمجھے کہ بھارت نے حملہ کر دیا ہے ، ہم پھر بھی نہ جاگے کہ ہمارا ملک ایک خوفناک سمت جا رہا ہے ۔ ہم اس وقت بھی دوسروں کی لڑائی لڑ رہے تھے ، ہمارے معاشرے پر اس کے اثرات نمایاں تھے۔

کراچی آگ کی لپیٹ میں تھا ۔ علی گڑھ ، قصبہ کالونی پھر سہراب گوٹھ ، ایک ایک روز میں 70 سے 80 افراد کا قتل اور قانون بے بس ۔ غیر ملکی میڈیا میں پاکستان کے بڑے بڑے لوگوں کو ہیروئین کے ذریعہ دولت بنانے کی خبریں نمایاں طور پر آنے لگیں ۔ایک بڑے ہوٹل کے مالک کو 7 سال کی سزاہو گئی ۔ وہ وہ کہانیاں سامنے آئیں کہ عقل دھنگ ، جن چیزوں کا تصور 80 تک دور دور تک نہیں تھا آپ کے سب سے بڑے شہر میں امیر بننے کی علامت بن گیا ۔

پاکستان بدل رہا تھا ، ہم ایک پرسکون پاکستان سے پر تشدد پاکستان کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے ۔ 31ستمبر 1988 کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام ہوا جب حیدر آباد میں دس منٹ کے اندر 252 لوگوں کو قتل اور اس کے دوسرے دن کراچی میں رد عمل میں 150 مزید لوگ ما ر دیئے گئے ۔ یہ بظاہر لسانی فساد تھا مگر دراصل اسلحہ کی روانی قانون کی بے حکمرانی تھی ۔ دوسری طرف ملک میں فرقہ وارانہ فسادات میں بھی اضافہ ہو گیا ۔

1988 میں ملک میں جمہوریت آنے سے پہلے جنرل ضیاء ایک فضائی حادثہ میں ہلاک ہو ئے ۔ یہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا کیونکہ اس میں کئی فوجی افسران کے علاوہ اس وقت کے امریکی سفیر بھی شامل تھے ۔ اس حادثے کی وجوہات آج تک پتا نہیں چل سکیں ۔ � جانتے سب ہیں مگر سب چپ ہیں �۔

جمہوریت کے پودے کو پانی دینے کا اختیار فوج اور آئی ایس آئی نے اپنے پاس رکھا ۔ جب مرضی ہوئی پودہ بدل دیا ۔ 1988 میں الیکشن ہوئے تو نتائج کو ایسے مرتب کیا کہ پی پی پی کو بہت سادہ اکثریت ملے ۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو آئی ایس آئی ہیڈ آفس میں بریفنگ میں کہا گیا � افغان پالیسی � وہی رہے گی ۔ یعنی ہم مداخلت کرتے رہیں گے ۔ بے نظیر نے تبدیلی کی کوشش کی تو ان کو تبدیل کر دیا گیا ۔ نواز شریف کو ایک ایسے وزیر اعظم کے طور پر لایا گیا جو فوج کی مرضی پر چلے ۔ جب اس نے اپنی بات کرنی چاہی تو بدل دیا گیا اور پھر معاملہ بے نظیر سے طے کیا گیا ۔ تین سال بعد پھر نواز اور اب کے دو تہائی اکثریت سے ۔

بے نظیر نے اپنے دوسرے دور میں 1994 میں 300 مصری باشندوں کو گرفتار کر کے مصر کے حوالے کیا مگر اس کا جواب

نائن الیون ہوا تو پاکستان کو بتا دیا گیا کہ یا تو اسامہ کو ہمارے حوالے کرنے میں مدد کریں اور ملا عمر کو تیار کریں یا ہم حملے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہم ایک مرتبہ پھر فوج کی زیر سایہ تھے ۔ ہمارے حکمراں جنرل پرویز مشرف تھے جو نواز شریف کی آئینی حکومت کو ختم کر کے آئے تھے ۔

پھر کیا تھا سب طالبان رہنما اور القاعدہ کے اہم رہنماؤں نے اکتوبر 2001 کے بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو انہوں نے پاکستان کا رخ کیا ۔ اس سے پہلے جنرل مشرف نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو دو جید علماء کرام مولانا مفتی نظام الدین شامزئی اور مولانا مفتی محمد جمیل کے ہمراہ قندار بھجوایا کہ مولانا عمر کو راضی کریں کہ اسامہ کو یا تو امریکہ کے حوالے کر دے یا افغانستان سے نکال دے ۔ واپسی پر مفتی جمیل ( مرحوم ) نے مجھے بتایا کہ جنرل محمود نے یہ بات اس کے برعکس کی ۔ یہ بات اگر درست ہے اور مجھے جمیل صاحب کی بات پر یقین ہے تو یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ ہم نے ایک ایسی سمت جانے کا فیصلہ کیا کہ جو پاکستان کے لئے تباہ کن تھی ۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اور پچھلے دس سال میں جو کچھ ہوا اس نے امریکی مداخلت کو دعوت دی ۔ بے شمار القاعدہ اور طالبان کے رہنماؤں کے علاوہ کئی بے گناہ امریکی قید خانوں میں برسوں سے رہ رہے ہیں ۔ شاید اگر ہم اپنی پالیسی اپنی خود مختاری کو سامنے رکھ کر بناتے تو نہ اوبامہ کی مداخلت ہوتی اور نہ ہی اسامہ کی ۔

آج مجھے قائد اعظم کا پاکستان واپس چایئے ۔ وہ پاکستان جہاں بچوں کو اچھی تعلیم ملے اور وہ بھی سستی ، جہاں پینے کا صاف پانی اور صحت کی بہتر سہولتیں ، جہاں نہ اوبامہ کی یہ جرات ہو سکے کہ میری سر زمین پر اپنی فوج کے ذریعہ حملہ کرے اور نہ ہی اسامہ یا اس جیسے کسی اور کو کہ وہ میری سر زمین سے کسی اور ملک میں دہشت گردی کے لئے بھیج سکے ۔

مجھے اپنے ملک کو بنانا ہے ، سنوارنا ہے ۔ امریکی مداخلت مجھے منظور نہیں ، دہشت گردی میرے ملک کے بچوں کے لئے زہر سے کم نہیں ۔ مجھے حریف نہیں حلیف بنانے ہیں ۔ مجھے قائد اعظم کا پاکستان چاہیے جس کی بنیاد 11 اگست 1947 کی تقریر تھی ۔

مجھے اسلحہ سے پاک پاکستان چاہیے ، جو ملک خود ار اور خود مختار نہیں رہ سکتے وہ ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی معاشی طور پر محتاج رہتے ہیں اور جو محتاج ہوتے ہیں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے جیسا دو مئی کو ایبٹ آباد میں ہوا ۔
Awsome sharing :(
 
Top