ایک سرکاری دفتر سے تھوڑی دور گاڑی پارک کرنے اور لاک کرنے کے بعد میں نے ھاتھ میں پکڑے ھوئے بسکٹ کے پیکٹ سے آخری بسکٹ نکال کر دانتوں میں دبایا اور خالی پیکٹ کو موڑ کر وھیں سڑک کے کنارے پھینک دیا اور تیزی سے قدم سرکاری دفتر کی طرف بڑھا دیئے جہاں مجھے ایک ضروری کام کے سلسلہ میں جانا تھا میرے آگے آگے دو بچے اسکول کی یونیفارم میں ملبوس بیگ اٹھائے ھوئے چلے جا رھے تھے ان میں سے ایک بچے کے ھاتھ میں بھی بسکٹ کا پیکٹ تھا جو شائد خالی تھا چند قدم چلنے کے بعد سڑک کے کنارے بنے ھوئے بس اسٹاپ کے پاس بچے کو جونہی ڈسٹ بن نظر آیا وہ فوراً ڈسٹ بن کی طرف لپکا اور بسکٹ کا خالی پیکٹ ڈسٹ بن میں ڈال دیا اور واپس اس طرف چل پڑا جہاں سے میں آ رھا تھا۔جیسے ھی وہ میرے پاس پہنچا تو میں نے حیران ھو کر اسے اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا بیٹا سڑک پر تو ھر طرف بے تحاشہ کچرا پڑا ھے پھر تم خالی پیکٹ پھینکنے کے لئے یہاں تک کیوں آئے وھیں کہیں پھینک دیتے۔
جواب میں وہ لڑکا بولا انکل اگر ھم سب سڑک پر کچرا نہ پھینکیں تو یہ سڑک بالکل صاف ستھری ھو جائے،میں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی تو کیا باقی لوگ ایسا نہیں کر سکتے،ھماری ٹیچر نے ھمیں پڑھایا تھا کہ صفائی نصف ایمان ھے تو پھر آپ ھی بتائیں کہ نصف ایمان کے بغیر ھمارا ایمان کیسے مکمل ھو سکتا ھے۔میرے پاس اس معصوم فرشتے کے سوال کا جواب نہیں تھا،میں وھیں سے واپس مڑا اور وھاں پہنچا جہاں بسکٹ کا خالی پیکٹ پھینکا تھا۔مجھے بھی تو اپنا ایمان مکمل کرنا تھا
جواب میں وہ لڑکا بولا انکل اگر ھم سب سڑک پر کچرا نہ پھینکیں تو یہ سڑک بالکل صاف ستھری ھو جائے،میں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی تو کیا باقی لوگ ایسا نہیں کر سکتے،ھماری ٹیچر نے ھمیں پڑھایا تھا کہ صفائی نصف ایمان ھے تو پھر آپ ھی بتائیں کہ نصف ایمان کے بغیر ھمارا ایمان کیسے مکمل ھو سکتا ھے۔میرے پاس اس معصوم فرشتے کے سوال کا جواب نہیں تھا،میں وھیں سے واپس مڑا اور وھاں پہنچا جہاں بسکٹ کا خالی پیکٹ پھینکا تھا۔مجھے بھی تو اپنا ایمان مکمل کرنا تھا