ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہونچے
اس کی آنکوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے
This site uses cookies to help personalise content, tailor your experience and to keep you logged in if you register.
By continuing to use this site, you are consenting to our use of cookies.