یونہی پہچان کے سارے حوالے ٹوٹ جاتے ہیں
جو بندھن کچے ہوتے ہیں وہ سارے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا دَر ذات کے کھولو ، نہیں یہ خامشی اچھی
جو محفل میں بھی رہتے ہیں اکیلے، ٹوٹ جاتے ہیں
نسب کے، خون کے، منصب کے تم لاکھوں سہارے دو
نہ ہوں جذبوں پہ جو قائم، وہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا جھوٹ بولو گے
کبھی کیا تم نے سوچا ہے کہ لہجے ٹوٹ جاتے ہیں؟
امیرِ شہر کے بچے کی ہلکی سی حقارت سے
مرے بچے کے ماٹی کے کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں
صدفؔ بے بس ہے، کملی میں اُسے اپنی اماں دیجئے
مرے آقا ! زمانے کے تو وعدے ٹوٹ جاتے ہیں
جو بندھن کچے ہوتے ہیں وہ سارے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا دَر ذات کے کھولو ، نہیں یہ خامشی اچھی
جو محفل میں بھی رہتے ہیں اکیلے، ٹوٹ جاتے ہیں
نسب کے، خون کے، منصب کے تم لاکھوں سہارے دو
نہ ہوں جذبوں پہ جو قائم، وہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا جھوٹ بولو گے
کبھی کیا تم نے سوچا ہے کہ لہجے ٹوٹ جاتے ہیں؟
امیرِ شہر کے بچے کی ہلکی سی حقارت سے
مرے بچے کے ماٹی کے کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں
صدفؔ بے بس ہے، کملی میں اُسے اپنی اماں دیجئے
مرے آقا ! زمانے کے تو وعدے ٹوٹ جاتے ہیں