السلام و علیکم
کیسے ہیں آپ سب؟
کچھ دن میں عید آنے والی ہے۔ عید کی تیاریاں ساتھ ساتھ چل رہی ہوں گی۔ کپڑے جوتے مہندی چوڑی غرضیکہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سب اس خوشی کو منانے کے لئے تیاری کر رہے ہوں گے۔ آج دل نجانے کیوں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہے۔ ایک عرصے بعد ایک کمی سی محسوس ہو رہی ہے۔ اور وہ کمی ہے
عید کارڈ کی۔ کہنے کو کاغذ کا ایک ٹکرا ہی تو ہوتا تھا لیکن اپنے اندر کتنا پیار و محبت سمیٹے ہوتا تھا۔ ہر لفظ پر یہی گمان ہوتا تھا کہ واقعی کارڈ لکھنے والے کی عید ہمارے بغیر ادھوری ہے۔ گزرے کچھ سالوں میں ریت ہی بدل گئی۔ پہلے لسٹ بنا کر اس حساب سے عید کارڈ خریدے جاتے تھے۔ اس کے بعد اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ بھیجنے میں تا خیر نہ ہو ورنہ عید کے بعد ملیں گے۔ طرح طرح کے شعروں سے عید کارڈ کو سجایا جاتا تھا۔ سال بھر میں چاہے خط و کتابت ہو یا نہ ہو لیکن عید کارڈ بھیجنا فرض سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے ابو اپنے ساتھ ساتھ ہم پر بھی یہ ذمہ داری ڈال دیتے تھے۔ ہمارا پسندیدہ شعر زیادہ تر یہ ہوا کرتا تھا
لوگ کہتے ہیں عید کارڈ اسے یہ روایت ہے اس زمانے کی
ایک دستک ہے ان کے ذہنوں پر جن کو عادت ہے بھول جانے کی
جب سے ٹیکنا لوجی پروان چڑھی ہے اس نے ہماری رسومات ہی چھین لی ہیں۔ایک وقت تھا کہ چٹھی لکھنا اور اپنی خیر خیریت سے آگاہ کرنا دوسروں کی خیریت دریافت کرنا بہت ضروری سمجھا جاتا تھا لیکن پھر موبائل نے آکر یہ سلسلہ ختم ہی کر دیا
تسی چٹھیاں پانیاں بھل گئے جدوں دا ٹیلی فون لگیا
اور پھر آہستہ آہستہ کر کے یہی ستم عید کارڈز کے ساتھ بلکہ عید کارڈ وصول کرنے والوں کے ساتھ بھی ہوا۔ عید مبارک دینے کا انداز ہی بدل گیا۔ بس موبائل پکڑا اور ٹیکسٹ کر دیا۔ بہت ہوا تو کارڈ کی فوٹو بھیج دی۔ اور تو اور کئی بار تو مختلف رشتہ داروں بہن بھائیوں کزنز وغیرہ کی طرف سے ایک جیسے کارڈ آ رہے ہوتے ہیں۔
کیا آپ ہمارے غم میں برابر کے شریک ہیں؟
اپنے ساتھ ایک عدد عید کارڈ لانا نہ بھولئیے گا۔ کیونکہ ہم سچ میں عید کارڈز کو بہت مس کر رہے ہیں۔
کیسے ہیں آپ سب؟
کچھ دن میں عید آنے والی ہے۔ عید کی تیاریاں ساتھ ساتھ چل رہی ہوں گی۔ کپڑے جوتے مہندی چوڑی غرضیکہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سب اس خوشی کو منانے کے لئے تیاری کر رہے ہوں گے۔ آج دل نجانے کیوں کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہا ہے۔ ایک عرصے بعد ایک کمی سی محسوس ہو رہی ہے۔ اور وہ کمی ہے
عید کارڈ کی۔ کہنے کو کاغذ کا ایک ٹکرا ہی تو ہوتا تھا لیکن اپنے اندر کتنا پیار و محبت سمیٹے ہوتا تھا۔ ہر لفظ پر یہی گمان ہوتا تھا کہ واقعی کارڈ لکھنے والے کی عید ہمارے بغیر ادھوری ہے۔ گزرے کچھ سالوں میں ریت ہی بدل گئی۔ پہلے لسٹ بنا کر اس حساب سے عید کارڈ خریدے جاتے تھے۔ اس کے بعد اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ بھیجنے میں تا خیر نہ ہو ورنہ عید کے بعد ملیں گے۔ طرح طرح کے شعروں سے عید کارڈ کو سجایا جاتا تھا۔ سال بھر میں چاہے خط و کتابت ہو یا نہ ہو لیکن عید کارڈ بھیجنا فرض سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے ابو اپنے ساتھ ساتھ ہم پر بھی یہ ذمہ داری ڈال دیتے تھے۔ ہمارا پسندیدہ شعر زیادہ تر یہ ہوا کرتا تھا
لوگ کہتے ہیں عید کارڈ اسے یہ روایت ہے اس زمانے کی
ایک دستک ہے ان کے ذہنوں پر جن کو عادت ہے بھول جانے کی
جب سے ٹیکنا لوجی پروان چڑھی ہے اس نے ہماری رسومات ہی چھین لی ہیں۔ایک وقت تھا کہ چٹھی لکھنا اور اپنی خیر خیریت سے آگاہ کرنا دوسروں کی خیریت دریافت کرنا بہت ضروری سمجھا جاتا تھا لیکن پھر موبائل نے آکر یہ سلسلہ ختم ہی کر دیا
تسی چٹھیاں پانیاں بھل گئے جدوں دا ٹیلی فون لگیا
اور پھر آہستہ آہستہ کر کے یہی ستم عید کارڈز کے ساتھ بلکہ عید کارڈ وصول کرنے والوں کے ساتھ بھی ہوا۔ عید مبارک دینے کا انداز ہی بدل گیا۔ بس موبائل پکڑا اور ٹیکسٹ کر دیا۔ بہت ہوا تو کارڈ کی فوٹو بھیج دی۔ اور تو اور کئی بار تو مختلف رشتہ داروں بہن بھائیوں کزنز وغیرہ کی طرف سے ایک جیسے کارڈ آ رہے ہوتے ہیں۔
کیا آپ ہمارے غم میں برابر کے شریک ہیں؟
اپنے ساتھ ایک عدد عید کارڈ لانا نہ بھولئیے گا۔ کیونکہ ہم سچ میں عید کارڈز کو بہت مس کر رہے ہیں۔