ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
جب کسی اور کے ہو جائیں گے نہ ہم
ہاں پھر تیرا غرور ٹوٹے گا
ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
جب کسی اور کے ہو جائیں گے نہ ہم
ہاں پھر تیرا غرور ٹوٹے گا
سارے وہم تیرے اپنے ہیں@shehr-e-tanhayi
ہم کہاں تم کو بھول پائیں گے
واہ کیا بات ہے۔۔۔۔۔ زبردستتیری بے اعتنائی کا ایک دن انجام یہی ہو گا@shehr-e-tanhayi
آخر بھلا ہی دیں گے تجھے یاد کرتے کرتے
تیری محبت سے لے کر تیرے الوداع کہنے تک@shehr-e-tanhayi
میں نے صرف تمہیں چاہا تجھ سے تو کچھ نہیں چاہا
اگر یہ ضد ہے کہ مجھ سے دعا سلام نہ ہو
تو ایسی راہ سے گزرو جو راہِ عام نہ ہو
سُنا تو ہے کہ محبت پہ لوگ مرتے ہیں
خُدا کرے کہ محبت تمہارا نام نہ ہو
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﺍﺳﮯ ﻟﮯ ﮈﻭﺑﮯ ﮔﯽ
ﮐﯿﺎ ﺑُﺮﺍ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﻣﺠھ ﭘﮧ ﻗﻨﺎﻋﺖ ﮐﺮ ﻟﮯ
وفا خلوص محبت کرم رواداری
ہر ایک لفظ سے ہے میں نے فریب کھایا
وہ یہ کہتی ہے میری تکمیل کرو عادل
کروں تکمیل اُس کی کہاں ایسا ہے نصیب پایا
نہیں۔۔۔۔ کیونکہہم میں تو خیر ہمت ہے درد سہنے کی
تم اتنے دُکھ دیتی ہو تھک تو نہیں جاتی
کوئی کرے تو سہی روشنی طلب ہم سے
دیا ہوا نہ ّمیسر تو گھر جلا دیں گے
نہ جانے کیوں مگر اِس دنیا کے جھوٹے لوگ
وفائیں کر نہیں سکتے باتیں ہزار کرتے ہیں
نہیں۔۔۔۔ کیونکہ
دُعا کو ہمنوائے نالۂ شب گیر کرنا ہے
فغاں کو آشنائے ّلذتِ تاثیر کرنا ہے
جنوں کو خوئے تسلیم و رضا تعلیم کرنی ہے
بگولوں کو اسیرِ حلقۂ زنجیر کرنا ہے
چھپا بیٹھا ہے اِک دشمن حصارِ ذات کے اندر
شکستِ جسم سے پہلے جسے تسخیر کرنا ہے
وہ آنکھیں جن کو ورثے میں ملی جاگیر نفرت کی
محبت کا سبق اُن کے لیے تحریر کرنا ہے
وہ منظر جو مری چشمِ تصور پر اُترتے ہیں
اُنھیں ہر چشمِ بینا کے لیے تصویر کرنا ہے
ہزاروں خواہشوں کی بستیاں مسمار کرنی ہیں
اِسی ملبے سے پھر اِک جھونپڑا تعمیر کرنا ہے
اُسے اپنا بنانے کی کوئی تدبیر کرنی ہے
مجھے تبدیل اپنا کتبۂ تقدیر کرنا ہے
اُس کے اندازِ کرم اور پھر وفا کی قسم
ہائے کیا قسم تھی خدا کی قسم
نغمۂ شوق مرا ، ُجنبشِ لب تک پہنچا
سلسلہ تیری ّتمنا کا طلب تک پہنچا
ایک خوشبو سی مرے سنگ سفر پر نکلی
ایک سایہ سا دبے پاؤں عقب تک پہنچا
موسمِ ُگل نے مہکنے کی اجازت چاہی
موجۂ بادِ صبا غنچۂ لب تک پہنچا
عشق الہام کی صورت مرے دل پر اُترا
ایک الزام مرے نام و نسب تک پہنچا
واہ بہت خوب
اُس حسن زادی سے کہو نہ تم
اس خاک زادے کو ہمسفر کرلے
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر تیرے ماتم میں رہوں
تم محبت کی روایت سے نہ بچ پاﺅ گی
جان لے لے گا کوئی جان سے پیارا بن کر
آمدورفت بند ھے
زندگی کے پچھلے دروازے سے
اور کوئی، خاموشی سے
چُپ چاپ وھاں رھتا ھے