مسلسل درد ھے تنہایاں ھیں اور آنسوں ھیں
مکمل میں نہیں جاناں تمھاری ذات سے کٹ کر
میری تکمیل میں شامل ہے تیرا حصہ بھی
میں اگر تُم سے نہ ملتا تو ادھورا رہتا
میں اگر تُم سے نہ ملتا تو ادھورا رہتا
مسلسل درد ھے تنہایاں ھیں اور آنسوں ھیں
مکمل میں نہیں جاناں تمھاری ذات سے کٹ کر
ﻭﮦ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺮﯼ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﺮﻧﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﻧﺎﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
وھی تو سارے جہاں سے عزیز ھے مجھ کو
وہ اک شخص جو بے حس ھے پتھروں کی طرح
سنو مجھے کچھ کہنا ہے
کتنی حسین ہیں تمہاری آنکھیں
اور
بد نصیب ہیں وہ آنسو
جو گرتے ہیں
تمہاری آنکھوں سے۔۔۔!!
مجھے تصویر اپنی دوسری دو
پرانی آنسوؤں میں دھل گئی ہے
ذرا ذرا سی شکایت پہ روٹھ جاتے ہیں
نیا نیا ہے ابھی شوق دل ربائی کا
سیکھ لے ہم سے کوئی ضبط جنوں کے انداز......
برسوں پابند رہے پر نہ ہلائی زنجیر..
ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﯿﺨﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﺪﺍ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ
ﺁﺗﯽ ﮬﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺫﻧﺪﻩ ﮬﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﻮ ﺩﻓﻨﺎﯾﺎ
ﺗﮭﺎ !___
طبیب یوں کوشش نہ کر
تجھے کیا خبر میرے مرض کی
تو عشق کر
پھر چوٹ کھا
پھر لکھ دوا میرے درد کی ۔۔
کوئی زنجیر نہیں پھر بھی گرفتار ہوں میں
کیا خبر تھی کہ تجھے یہ ہنر بھی آتا ہے
من مورکھ مٹی کا مادھو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے
اس کو تم کیا دھوکا دو گے بات کی بات بہل جاتا ہے
رقص کرتا رھے بھرتا رھے خوشبو کا خمار
میری خواھش کے جزیروں میں تبسم تیرا
جب وہ مجھ سے کلام کرتا ہے
دھڑکنوں میں قیام کرتا ہے
لاکھ تجھ سے ہے اختلاف مگر
دل ترا احترام کرتا ہے
دن کہیں بھی گزار لے یہ دل
تیرے کوچے میں شام کرتا ہے
ہاتھ تھاما نہ حال ہی پوچھا
یوں بھی کوئ سلام کرتا ہے
وہ فسوں کار اس قدر ھے شیبی
بیٹھے بیٹھے غلام کرتا ہے.
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻗﺮﺍﺭ ﮐﮭﻮﻧﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺳُﻨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺍُﭨﮫ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺳُﻨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ
ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻋﮩﺪِ ﺷﺒﺎﺏ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﻧﺌﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﻭ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﺷﺐِ ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺳﻮﻧﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺳُﻨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ
ﺑﮭﻨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺗُﻢ ﮨﻢ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺗﮯ
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺭﺍﺯ ﺭﮨﺘﺎ
ﻻ ﮐﮯ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﮧ ﯾﻮﮞ ﮈﺑﻮﻧﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﺳُﻨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ
ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺗﻢ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﻮ ﻣﯿﺮﯼ
ﻭﻩ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﮯ ﭼُﭗ ﺭﮨﻮ ﻧﮧ
ﮐﻮﺋﯽ ﺳُﻨﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮯ ﮔﺎ
دیئے کی آرزو کو جب ۔۔۔۔ بجھایا تھاعیشِ بزمِ دوست۔۔عیشِ جاوداں سمجھا تھا میں
یہ بھی اک خوابِ سحر ہے کہاں سمجھا تھا میں
مجھ کو اپنی بیخودی کا وہ بھی عالم یاد ہے
جب کسی کو اپنے دل میں مہماں سمجھا تھا میں
Very nice sisterواہ بہت خوب
عرض کیا ہے
اس نے آنکھوں سے پکارا مجھ کو
میں نے آواز کو آتے دیکھا
تم بهی هر شب دیا جلا کر پلکوں کی دهلیز په رکهنا.تجھ سے نفرت بہت ضروری تھی
یہ نہ ہوتی تو پیار ہو جاتا
پھر دل میں سلگ اٹھی ہے زنجیر کی خواہش
اب خواب ہیں مطلوب نہ تعبیر کی خواہش
پاگل دل نادان تھا کہ کرتا رہا شب بھر
خوابوں کی حویلی میں کسی ہیر کی خواہش
نئے زمانوں کا کرب اوڑهےمیری تکمیل میں شامل ہے تیرا حصہ بھی
میں اگر تُم سے نہ ملتا تو ادھورا رہتا