واہپھول سے خوشبو ابھی برہم نہیں
پھر بھی تیری یاد کے موسم نہیں
پھول کیسے مسکرائیں دوستو!
میرے ہونٹوں پر اگر شبنم نہیں
تو بھی میری آرزو میں جل گیا
میں بھی تیرے ہجر میں کچھ کم نہیں
میں وفا کی خواہشوں میں لٹ گئی
اور بھی کوئی لوٹ لے تو غم نہیں
انا کی آگ میں چاہت کے پھول جھونکے گا
وہ اعتبار کی آنکھوں میں دھول جھونکے گا
جو اختلاف کی آتش کبھی بھڑک اٹھی
تو مجھ کو ڈر ہے وہ پہلے اصول جھونکے گا